کرکٹر سے پرائم منسٹر تک

پیر 21 دسمبر 2020

Iqbal Hussain Iqbal

اقبال حسین اقبال

وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان اپنی کتاب "میں اور میرا پاکستان" میں جناحؒ،گاندھی،مادر ٹریسا اور نیلسن منڈیلا جیسے عظیم شخصیات کو رول ماڈل تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ان کی کامیابیاں دوسروں سے زیادہ ہیں تو اس کا سبب یہ نہیں کہ ان میں صلاحیتیں زیادہ تھی بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ایک عظیم نظریہ اور ایک آرزو رکھتے تھے۔

علاوہ ازیں انہوں نے اپنی جماعت تحریک انصاف اور خود ایک کرکٹر سے لے کر قومی سیاست تک پہنچنے کے تمام اہم واقعات کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔جن کے مطالعے سے دنیا بھر کے شہرہ آفاق رہنماٶں سے متعلق ہوش رُبا حقائق طٙٙشت ازبام ہوتے ہیں۔
مثال کے طور آپ جنوبی افریقہ میں نسلی امتیازات کے خلاف حق اور سچ کی آواز بلند کرنے والے نیلسن منڈیلا کو دیکھ لیجیے'جس نے اپنی زندگی کی قیمتی ستائیس سال قید و بند کی صعوبتوں میں گزاری'مگر اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے۔

(جاری ہے)

اسی پختہ عظم و ارادے کے طفیل وہ اقوام عالم کے ایک درخشاں ستارہ بن گئے اور نہ صرف جنوبی افریقہ کے صدر بنے'بلکہ اس ملک سے نسلی تفرقے کے فرسودہ نظام کا خاتمہ کر ڈالا اور عالمی امن کا نوبل انعام پا کر دنیا بھر کے عالمی رہنماٶں میں صفحہ اول پر اپنا مقام بنا لیا۔
اسی طرح خود عمران خان کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو آج سے 24 سال قبل کسی کے وجدان میں بھی نہیں تھا کہ یہ نوجوان کرکٹر سے پرائم منسٹر تک کا سفر طے کر کے عشروں محیط تمام وراثتی حکومتوں کو شکست فاش دینے میں سرخرو ہو جائیں گے۔

کرکٹ سے سُبک دوشی کے بعد جب 25 اپریل 1996ء کو اپنے ساتھ چند رفقاء کو لے کر قافلے کا کمان سنبھالے سیاسی سفر کا آغاز کیا،تب حزبِ اختلاف کی جانب سے انہیں سیاسی طفلِ مکتب تصور کرتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور مشکلات کی دیواریں کھڑی کی گئی تھیں۔نیوز سٹوڈیو میں ایک صاحب تو انہیں یہ کہتے ہوئے ایک بلا پیش کر رہے تھے کہ یہ سیاست ہے کرکٹ کا گرونڈ نہیں اور یہ آپ کی بس کی بات نہیں۔

خان صاحب تبدیلی کا نعرہ لگا کر میدان میں اترے آئے تھے جو کہ مافیاز کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔کیونکہ پاکستان میں پچھلے کئی دہائیوں سے دو ہی مخصوص پارٹیوں نے مغلیہ دور سلطنت قائم کر کے باریوں پہ باریاں لے رہے تھے۔ایسے نامساعد حالات میں کپتان کو حق اور تبدیلی کی بات کہنا جوئے شِیر لانے کے مترادف تھا۔
دوسری جانب کپتان کی آسمان چھوتی عوامی مقبولیت کو زیر کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر نام نہاد صحافیوں کی ایک ٹولے کو سرگرم کیا گیا۔

جو کپتان کی کردار کشی کے لیے ہر طرح کی غلیظ زبان،نازیبا الفاظ کا استعمال اور ہر اخلاق سے گری پوسٹ کو شئیر کرنے کے علاوہ مختلف پروپیگنڈے کرتے رہے۔حسد و کینہ کی یرقان جبکہ بغض و عداوت کی سرطان میں مبتلا لوگوں کا گمان تھا کہ عوام پر حکمرانی کا حق صرف دو ہی مخصوص پارٹیوں کو حاصل ہے۔
گویا ہر طرف سے کانٹوں کا جال بچھایا گیا تھا۔خان صاحب کے قافلے کے لیے منزل دور،سفر کھٹن اور رہزنوں کے ہاتھوں لٹنے کا خدشہ تھا مگر میرِ کارواں نڈر،نگاہیں بلند،حوصلے بلند،جذبات بلند،ارادے قوی اور اللہ پر یقینِ محکم جیسے اعلیٰ و ارفع صفات'سیاسی بیڑے کو منزلِ مقصود تک پہنچانے میں معاون ثابت ہوئیں۔

یوں علامہ اقبالؒ کے اس شہرہ آفاق شعر کی مانند۔
نگاہ بلند سخن دل نواز جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
آخر ہر تاریک رات کے بعد روشن صبح ہوتی ہے۔25 جولائی 2018ء کو خوش قسمتی کا سورج طلوع ہوا۔ملک بھر میں انتخابات ہوئے'جس میں پاکستان تحریک انصاف کو 22 سالہ سیاسی نشیب و فراز کے بعد بھاری اکثریت سے شاندار کامیابی حاصل ہوئی اور عمران خان پاکستان کی سیاست میں لوہا منوا کر پاکستان کے تیسویں وزیراعظم بن کر کامیابی کے جھنڈے میں سرخ رو ہو جاتے ہیں۔

بہت ساری مشکلات کے باوجود اللہ پر یقینِ کامل اور مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے ایک کھلاڑی سے وزیراعظم کے اعلیٰ منصب تک کا طویل ترین سفر طے کرنے میں کامیاب ہو جانے سے اور عمران خان کی پُرخار راستوں پر چلتی زندگی عام افراد کے لیے کامیابی کے کئی در کھول دیتی ہے۔
کپتان کے اقتدار میں آتے ہی قدرتی آفات،عالمی چپقلشیں،بے روزگاری،مہنگائی اور دیگر ناموافق حالات نے ملک کو مسائل سے دوچار کیا ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت کو ڈھائی سال کا عرصہ بیت چکا ہے مگر حقیقی تبدیلی کا سورج دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کپتان اپنی دورِ حکومت کے بقیہ سالوں میں اپنے وعدوں کو عملی جامع پہناتے ہوئے کس طرح عوامی اُمنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں اور اس ملک کو اپنی ذاتی عیاشیوں کے لیے دو دو ہاتھوں سے لوٹنے والوں کو کس طرح عبرت کا نشان بناتے ہیں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :