مشرف کیس فیصلہ آئین کی بالادستی یا پھر آئین اور نظام سے نجات کی طرف پہلا قدم

جمعہ 20 دسمبر 2019

Jahangir Humayun

جہانگیر ہمایوں

وطن عزیز میں تیزی سے بدلنے والے حالات کے مطابق پچھلا ایک ہفتہ پاکستان میں نظام عدل کے لئے عوام کی سوچ میں نہایت منفی اثر چھوڑ گیا اور پورا ملک ایک حیجان میں مبتلا ہو گیا ہے،پنجاب کارڈیالوجی کا واقع اور اس پر قانون کے شعبے سے جڑے بڑے بڑے ناموں کی جانب سے وکلاء کا دفاع کرنا، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر قانون سازی کا فیصلہ اور آخر میں پاکستان فوج کی سینتالیس سال سروس کرنے اور پاکستان کے لئے دو جنگیں لڑنے والے آرمی چیف جو اب تک ہمیں مختلف فورمز پر پاکستان کا کیس لڑتا نظر آتا ہے اس جنرل پرویز مشرف پر آئین کو معطل کرنے کے جرم میں غداری کا دھبہ لگا کر سزائے موت کا حکم سنانا جس پر پورے پاکستان کی طرف سے شدید ردعمل آیا اور سب سے بڑھ کر تھا۔


 فوج کا ردعمل اگر فیصلہ سنانے سے پہلے تمام قانونی تقاضے بروئے کار لائے جاتے تو یقینا ردعمل ایسا نہ ہوتا اور آج ہمیں پاکستان کے سب سے تگڑے دو ادارے آمنے سامنے کھڑے نظر آ رہے ہیں، اب چونکہ فیصلے آ چکے ہیں تو ان پر سوال اٹھانا یا تبصرہ کیا جا سکتا ہے،پاکستان کے قانون کے مطابق جب کوئی ملزم یا مجرم مفرور ہو مقدمے میں حاضر نہ ہو تو اسکی جائیداد اور بنک اکاؤنٹ ضبط کر لئے جاتے ہیں یا کُرک کر دئے جاتے ہیں مگر مجرم کی پیشی اور 342 کے بیان کے بغیر کیس کا فیصلہ سنایا ہی نہیں جا سکتا تو سزائے موت تو اور پیچیدہ مسئلہ ہے جس سے یہ تاثر عام ہے کہ فیصلہ عجلت میں آیا،جب آئین معطل ہوا تو جنرل مشرف کو مشورہ دینے والے انکا ساتھ دینے والے ججز سیاستدان اور سب سے بڑھ کر اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز جنہوں نے ایمرجنسی نافذ کرنے کی ذمہ داری لی یا پھر وہ معزز جج صاحبان جنہوں نے پی سی او ججز کا حلف لیا کیا وہ غدار نہیں تھے کیا وہ سزا کے مستحق نہیں؟ ماضی قریب میں ارشد ملک جج کی ویڈیو کے قصے ہیں اور ایک وقت تھا جسٹس قیوم کی آڈیو کا چرچا تھا تب بھی یہ تاثُر تھا کہ انصاف لوگوں کی خواہش پر کیا جا رہا تھا کیا وہ اپنے حلف سے غداری نہیں تھی۔

(جاری ہے)

 سزائے موت کے حقدار نہیں؟ حسین حقانی میمو گیٹ، ڈان لیکس، سکھوں کی لسٹیں بھارت کو دینا اور گجرال کو حساس معلومات دینا غداری نہیں ملک سے وفاداری ہے؟ سنا ہے والیم 10 کا ڈبہ اسی لئے نہیں کھلا کے ملک کے اصل غداروں کے نام اسی میں ہیں تو یہ ایک لمبی اور نا ختم ہونے والے کیسیز کی لسٹ ہے جہاں کمزوری دکھائی گئی تو آج اتنی بہادری دکھانے کا مقصد سمجھ نہیں آیا، جنرل کیانی کو ۳ سال کی جب توسیع دی گئی تب سوال کیوں نہیں اٹھایا گیا؟کہا جاتا ہے کیانی صاحب کی مدت ملازمت بڑھانا جنرل الیکشن 2013 سے مشروط تھا پھر جاتی امراء میں الیکشن کا سکرپٹ تیار کرنے والے 4 اداروں کے سربراہان کی ملاقات پوشیدہ نہیں رہی تھی خیر جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں کہ جب ملک سے مولانا کی مارچ کے سیاہ بادل چھٹ گئے نواز شریف اور زرداری جیلوں سے ہٹ گئے اور اپوزیشن کو بھی چین آگیا اور بظاہر ملک مستحکم اور یہ بوسیدہ پارلیمانی نظام کی بچت بھی نظر آ رہی تھی تو اچانک ایسے سخت ترین فیصلے جن سے بھونچال آ گیا۔

 یہ ٹائمنگ اور بے وجہ کی سختی سمجھ سے بالاتر ہے اور میرے مطابق ملک کے ان نازک حالات میں جب جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں تو جنرل باجوہ کی ملازمت میں توسیع کو قانون سازی سے مشروط کرنا ناقابل یقین عمل ہے اور توسیع کی قانون سازی کے لئے حکومت کو اپوزیشن کے ووٹ کی ضرورت ہے اور اپوزیشن کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ عمران خان اور فوج کے مسائل ختم ہوں بلکہ اپوزیشن جماعتیں تو دعا کر رہی ہیں کہ یہ دونوں کل کے جاتے آج جائیں اور جہاں تک حکومتی قانونی ٹیموں کاتعلق ہے تو شاید انکے لئے ہی کسی نے کہا تھا
کُجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن
کُجھ سانوں مرن دا شوق وی سی 
ویسے تو وزیراعظم کے گرد حصار کئے ہوئے مشیران کی فوج کی عمران خان سے وفاداری اور انکی اہلیت پر میرے تحفظات پہلے دن سے ہیں کیونکہ وہ سب ایک دو سال پہلے عمران خان کے مخالفین تھے اور موسمی بٹیرے ہیں جنکا نظریہ اور مقصد صرف پاور ہے حکومت ہے اور شاید مال بنانا بھی وہ کیوں وزیراعظم کو سہی مشورہ دیں گے اب تک وہ خان صاحب کو مشکلات میں پھساتے ہی نظر آئے ہیں۔

 ایسے حالات میں جنرل باجوہ کی مدت ملازمت کی توسیع کے لئے قانون سازی ناممکن لگتی ہے اور کیا قانون سازی نہ ہوئی تو آرمی چیف جنرل باجوہ گھر چلیں جائیں گے؟ ہر گز نہیں اور نہ انہیں اس طرح سازش کا شکار ہو کر پیچھے ہٹنا چاہئے قوم ان کے ساتھ ہے اور وہی وقت ہوگا جب مجھے اس سارے چالوں کے جال اور سسپنس سٹوری کا کلائمیکس سین ہوتا نظر آ رہا ہے اور جنرل مشرف کیس کا فیصلہ آئین کی بالادستی نہیں بلکہ تہتر کے آئین میں جو ترامیم کے بعد کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے لئے ڈھال بن چکا ہے اور اس بوسیدہ پارلیمانی نظام سے نجات کی طرف پہلا قدم ہے ۔

جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو مشرف کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی آگیا اور اس میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جن سے فیصلے پر بے شمار سوال اٹھ گئے اور ہر طرف غم غصہ عروج پہ ہے تو سچ پوچھیں تو مجھے بھی بحیثیت انسان،مسلمان اور بحیثیت پاکستانی شدید تکلیف ہوئی اور وہ تھا جسٹس وقار سیٹھ کی طرف سے تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا پیراگراف 66 جسکے مطابق اگر پرویز مشرف کی طبعی موت ہو جاتی ہے تو انکی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک لایا جائے اور تین دن کے لئے لٹکا دیں ایسی سزا کی مثال منگولوں کے دور حکومت کے بعد مجھے تو کہیں نہیں ملتی اور پاکستان کے قانون میں اس سزا کا کوئی وجود ہی نہیں بلکہ لاش کی بے حرمتی ایک جرم ہے، کیا اس بے معنی پیراگراف کا مقصد ایک طاقتور ادارے کی تضحیک تھا؟ ملک کے حالات کی خرابی تھا؟ جہاں ہر طرف غصہ آگ پکڑ رہا تھا اور مزمت کی جارہی تھی اس ججمنٹ کی وہاں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بہت معتدل،مثبت اور دوراندیش مختصر سی پریس کانفرنس کر کے آگ پر پانی ڈالا اور ثابت کیا کہ فوج ہر سازش اور چال سے ملکی حالات کے استحکام اور سلامتی کو مدنظر رکھ کر نپٹتی ہے۔

 پاکستان اس وقت شطرنج کی بساط لگتا ہے ہر طرف بیرونی اور اندرونی چالوں کے جال بچھائے جا رہے ہیں اوربیرونی قوتوں کے سہولت کار اس نظام میں رچ بس گئے ہیں جڑوں میں شامل ہیں اس لئے اب کچھ بڑا ہوتا نظر آرہا ہے اور اب ہم اندرونی آخری معرکے کی طرف بڑھ رہے ہیں، جو ہوگا سٹیٹس کو کا پورا بوسیدہ نظام بمقابلہ وزیراعظم،پاک فوج اور عوام، انشاء اللہ جیت پاکستان کی ہوگی اور وہ وقت بہت قریب ہے جب پاکستان کی ہاں میں سب کی ہاں ہوگی اور پاکستان کی نہ میں سب کی نہ، پاکستان زندہ باد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :