قائداعظم کا ویژن اور آج کنفیوژن

جمعہ 12 جون 2020

Javed Ali

جاوید علی

اگر اسے کنفیوژن کو دور نہ کیا جاۓ تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے- اس کا شکار میرا ملک بھی تیزی سے ہوتا جا رہا ہے۔ آزادی کے بعد ہم اس قوم کی تیسری نسل ہیں اور ہم اس الجھن میں ہیں آیا کہ ہم اسلامی ملک یا سیکولر ملک میں رہ رہے ہیں-  کیوں کہ جب ہم اپنی سات دہائیوں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو زیادہ تر سیکولر ادوار ہیں بلخصوص ایوب خان اور مشرف دور۔

اس میں ہمارے میڈیا نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ ہمارا تاریخ کا مطالعہ کرنے اور اپنے اینکرز کے نقطہ نظر سننے سے ، ہم اس الجھن میں مزید پڑ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ، ہم زیادہ تر ماس (mass) میڈیا اور سوشل میڈیا پر انحصار کرتے ہیں۔ ہمیں معلومات کے  مستند ذرائع پر انحصار کرنے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

میں اسلامائزیشن کے لئے بانی پاکستان کی کاوشوں کو آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

روشن خیال لوگ (2013) تک بہت خوش تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ اپنے پروپیگنڈوں میں کامیاب ہیں۔ اس سلسلے میں وہ حوالہ جات بھی کرتے تھے اور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلامائزیشن ایک سیاسی آلہ تھا جسے ضیاء الحق نے استعمال کیا۔ یہ کسی نہ کسی طرح سچ ہے لیکن وہ 2013 تک نہیں جانتے تھے کہ " ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ریکنسٹرکشن" کے ریکارڈ کا ایک حصہ محفوظ ہے۔

وہ اپنے پروپیگنڈے میں ناکام ہو گۓ جب 25 دسمبر 2013 کو پنجاب کے آرکائیو نے ایک دستاویز "Aims & objects of the department of Islamic reconstruction by Muhammad Asad, director, Department of Islamic reconstruction " کے عنوان سے میڈیا کے سامنے لے آیا۔ اسی دستاویز میں ایک سٹیٹمنٹ ہے کہ ان دنوں جسمانی اور روحانی دونوں بڑی تبدیلیوں کے پیش نظر جو ہمارے ملک میں مسلم ملت ان دنوں چل رہی ہے ، حکومت کو یہ نیا مشورہ ملا ہے کہ ایک نیا محکمہ تشکیل دیا جائے جو ان تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی کچھ پریشانیوں سے نمٹ سکے۔

. اس محکمے کا حتمی مقصد ہماری کمیونٹی کو اسلامی خطوط پر اپنی زندگی بدلنے میں مدد فراہم کرنا ہے اور اسی وجہ سے اس کو "ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ریکنسٹرکشن " کا نام دیا گیا ہے۔
پاکستان اس وقت واحد ملک تھا جو نظریہ کی بنیاد پر 14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آیا۔ جسے ہم نظریہ اسلام یا دو قومی نظریہ کے نام سے جانتے ہیں- برصغیر کی تقسیم خالصتا مذہب پر نام پر کی گئی۔

قائد اعظم محمد علی (جناح) نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور چودھری لیاقت علی خان نے پہلے وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ زیادہ تر لوگ اسلام کو ایک ریاستی مذہب ( state religion) تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ لہذا ، آپ نے اسلامائزیشن کے لئے بہت سی کوششیں کیں۔ اس مقصد کے لئے ، انہوں نے ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ریکنسٹرکشن کے شعبہ کے نام سے 27 اگست 1947 کو  ایک نیا ادارہ قائم کیا۔

یہ واحد محکمہ ہے جسے قرئداعظم نے  اپنی زندگی میں بنایا۔ اس کے علاوہ تمام محکمے انگریز کے بناۓ ہوۓ تھے- انہوں نے علامہ محمد اسد کو اس ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ منتخب کیا۔ (علامہ اسد پاکستان کا پہلا پاسپورٹ رکھنے والے تھے) اس محکمے کے چار اہم مقاصد ہیں۔ آئین کا مسودہ تیار کریں ، معاشی نظام کے فریم ورک  ، نظام تعلیم کا فریم ورک اور •    سیاسی نظام کو اسلام کے اصولوں کے مطابق ڈھالنا تھا. قرار داد مقاصد اس محکمہ کے کام کی عکاسی کرتی ہے۔

قائداعظم کی وفات کے بعد ، یہ محکمہ زیادہ دیر نہیں چل سکا۔  علامہ اسد کا تبادلہ پاکستان کی وزارت خارجہ میں کر دیا گیا۔ اسد کی غیر متوقع طور پر تبادلہ کے بعد ، ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ریکنسٹرکشن کی پرفارمنس کمزور ہونا شروع ہوگئی۔ اس محکمہ کا زیادہ تر ریکارڈ اکتوبر ، 1948 میں جلا دیا گیا- حکومت پنجاب کے ارکائیو کے قبضے میں صرف کچھ دستاویزات باقی ہیں۔


قائد اعظم عملیت پسند یقین تھے وہ مغربی نظام معیشت (سرمایہ دارانہ) نظام کے بلکل خلاف تھے- وہ صوبائیت اور علاقائیت کے بھی خلاف تھے لیکن ان کے انتقال کے بعد ہم نے مغربی معاشی نظام کو اپنایا اور صوبائیت کے بیماری میں بری طرح سے پھنس گے۔ اس وجہ سے ہمارا ملک دو الگ الگ ریاستوں میں تقسیم ہوگیا ، 1971 میں مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے علیحدہ ہوگیا۔

لیکن ہم نے اس سے بھی کچھ نہ سیکھا- اس کے بعد ہم نے بلوچستان ، پشتونستان کی علیحدگی کی آوازیں بھی سنیں اور سندھو دیش کی بھی۔ 1973 کے آئین میں اٹھارویں ترمیم پاکستان میں صوبائیت کو فروغ دینے کی ایک بہترین مثال ہے۔ وفاق کچھ کر رہا ہے تو صوبے کچھ اور کر رہے ہیں- اس کی وجہ پاکستان کے صوبائی حکومتوں میں سے اتحاد اور اتفاق نہیں رہا-
انہوں نے اسٹیٹ بنک کے افتتاح کے موقع پر سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہوۓ کہا  اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو سماجی اور معاشی زندگی کے اسلامی نظریات کے مطابق ایک معاشی نظام تیار کرنا چاہئے۔

مغربی معاشی نظریہ  ہمارے مقصد کو حاصل کرنے میں ہماری مدد نہیں کر سکتا۔ اتحاد ، ایمان ، نظم و ضبط,فرض شناسی  اور بے لوث عقیدت کے ساتھ ، ایسی کوئی بھی قابل قدر چیز نہیں ہے جو آپ حاصل نہیں کرسکتے۔ ہمیں پاکستان کو صوبائیت کی بیماریوں سے نجات دینی ہوگی۔ ہمیں پاکستانی کے طور پر جانا جانے پر فخر کرنا چاہئے اور کچھ نہیں-
آج ، ہمارے دانشوروں کہتے  ہیں کہ ہمارا ملک انگریزی تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا- ، ترقی کرنے کے لۓ ہمارا تعلیمی نظام انگریزی زبان میں ہونا لازمی ہے جو کہ سراسر غلط ہے ہمارے سامنے چین اور جاپان کی مثال ہے جنہوں نے انگریزی کو اپناۓ بغیر اپنی زبان میں رہے کر ترقی کی ہے۔

قائد اعظم نے اس کی نفی کی تھی ، ان کا خیال تھا کہ ترقی کرنے کے لۓ ہمارا سارا سسٹم ہماری اپنی زبان میں ہونا چاہئے جو ہمارے اتحاد کی روح ہے۔ انہوں نے کہا ، "اردو ہی ہماری قومی زبان ہو گی" تمام پاکستانی صرف اردو زبان کے ذریعہ ہی ایک دوسرے سے جڑ سکتے ہیں۔ پنجابی ، سندھی ، پشتو ، بلوچی ، کشمیری اور سرائیکی وغیرہ سب اردو کو آسانی سے جانتے اور سمجھتے ہیں۔

تمام علمائے کرام خطبات کے دوران اردو بولتے ہیں جو ہر جگہ سنے جاتے ہیں۔ اردو زبان ہمارے درمیان رابطے کا واحد چینل ہے۔ وہ پاکستانی عوام کے مساوی حقوق اور ہر ایک کی مذہبی آزادی پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا ، "پاکستان کے شہری کی حیثیت سے ، ہمیں رنگ ، مسلک ، کاسٹ اور مذہب سے قطع نظر ، مساوی حقوق ، مراعات اور ذمہ داریاں حاصل ہیں۔" ہر ایک اپنی عبادت گاہوں پر جانے کے لئے آزاد ہے-
انہوں نے اس جمہوریت کی بات کی جو اسلامی اصولوں پر مبنی ہو۔

بدقسمتی سے ہم نے جمہوریت کی مغربی شکل کو نافذ کیا جس میں ایک اسکالر اور جاہل ، متقی اور بدنام ، ایک دانشور اور پاگل ، ایک ڈاکٹر اور عطائی کو برابر کے ووٹ کا حق حاصل ہے جو غیر اسلامی عمل ہے۔ وہ پسندی اور اقربا پروری ، بلیک مارکیٹنگ رشوت اور ہر طرح کی بدعنوانی (اخلاقی ، معاشرتی ، معاشی ، سیاسی وغیرہ) کے خلاف تھے۔
 جناح کے مطابق دو قومی نظریہ کا تصور اسی دن شروع ہوا جب پہلے ہندو نے برصغیر کی سر زمین پر اسلام قبول کیا۔

اس سے قبل جناح واحد سیاستدان تھے جنھیں برصغیر میں ہندو مسلم اتحاد کا بہترین سفیر کہا جاتا تھا۔ 1937 کے تاریخی واقعات ( کانگریسی وزارتیں) قائد اعظم کے ذہن کو بلکل تبدیل کر دیا اور انہوں نے کہا ہم اپنی ایک مخصوص ثقافت اور تہذیب ، زبان و ادب ، آرٹ اور فن تعمیر اور کیلنڈر ، تاریخ اور روایات رکھتے ہیں ہماری اپنی پہچان ہے۔ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں علیحدہ وطن (پاکستان) کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔

اس موقع پر ، قائداعظم نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا: "اسلام اور ہندوازم صرف مذہب نہیں ہیں بلکہ حقیقت میں دو مختلف اور الگ الگ سماجی نظام  ہیں جو ایک داسرے کی نفی کرتے ہیں ... ہندو اور مسلمان دو مختلف  مذہبی فلسفے ، معاشرتی رسومات ، ادبیات۔ وہ نہ تو ایک دوسرے کے ساتھ شادی کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں اور در حقیقت ، ان کا تعلق دو مختلف تہذیبوں سے ہے جو بنیادی طور پر متضاد نظریات اور تصورات پر مبنی ہیں۔

انہوں نے کہا ، "یہ ایک خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی بھی ایک مشترکہ قومیت کا ارتقا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مل کر رہنے کی طویل تاریخ سے یہ ثابت ہوا کہ "ہندوؤں اور مسلمانوں کے پاس اس حقیقت کے سوا کچھ مشترک نہیں ہے کہ انہوں نے ایک ہی زمین پر رہتے ہیں- ان کا مذہب ، ان کی اقدار ، اور ان کی ثقافت ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
آج ہمارے ذہنوں میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم پاکستان میں اسلام کو کیوں نہیں لاگو کرسکے- اس کا جواب بہت آسان ہے ، قیام پاکستان کے بعد بیشتر افراد ، جو پاکستان کی تشکیل کے ہی خلاف تھے سیاست میں آئے اور اعلی عہدوں پر فائز ہو گۓ۔

قائد اعظم نے اس سوال کا جواب اس وقت دیا جب انہوں نے محمد امیر احمد (محمود آباد کا راجہ) کے خط پر جواب دیا۔ انہوں نے لکھا کہ یہاں ستر سے زیادہ فرقے ہیں اور ان کے فقہائے کرام "اسلامی عقیدے کے سلسلے میں مختلف رائے رکھتے ہیں ، اور اگر راجہ جس چیز کی تجویز کررہا تھا اس پر عمل کیا جائے تو اس کے نتائج ریاست کے آغاز ہی سے مذہب کی رائے کی جدوجہد کا نتیجہ ہوں گے۔

" آزادی حاصل کرنے کے بعد جب راجہ کی کراچی میں قائداعظم سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے راجہ کے سوال کا جواب دیتے ہوۓ کہا کہ امیر آپ نہیں جانتے کہ یہاں کی صورتحال کیا ہے ، “میں غداروں سے گھرا ہوا ہوں۔ میں پاکستان کی تقدیر ان کے سپرد نہیں کرسکتا-
کچھ سیکولر کہتے ہیں کہ دو قومی نظریہ غلط تھا اور یہ سوال پوچھتے ہیں کہ "اگر مسلمان ایک ہی قوم ہیں تو پھر وہ تین مختلف ریاستوں میں تقسیم ہوۓ ہیں یا کیوں رہتے ہیں؟" مسلمانوں کے لۓ ہندوستان میں عدم برداشت کی بڑھتی ہوئی نفرت اس بات کا ثبوت ہے کہ دو قومی نظریہ درست ہے۔

میں دعوی کرتا ہوں کہ جو مسلمان (ہندوستان) ہجرت کر کے پاکستان آۓ  انھوں نے شرح خواندگی  اور معاشی مواقع کے لحاظ سے ہندوستان میں قیام پذیر لوگوں کے مقابلے میں بہت ترقی کی۔ اگر آپ مسعود مفتی کی کتاب (ناول) "چہرے" پڑھیں جو انہوں نے انہی دنوں ہوٹل میں بیٹھ کر سارے حادثہ کو دیکھ کر لکھا- آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ سیاسی مفادات تھے جن کی وجہ سے تفرقہ پیدا ہوا- اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ دو قومی نظریہ غلط تھا۔

پارلیمنٹ کے ہندو ممبر ، رمیش وانکواانی کا کہنا ہے کہ وہ اس نظریہ پر یقین رکھتے ہیں اس کے باوجود وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں بسنے والے ہندو اور مسلمان "ایک ہی قوم - پاکستانی ہیں" اگر یہ غلط ہے تو ہم سے مختلف ٹی وی پروگراموں میں ہندوستانی اینکرز  یہ کیوں پوچھتے ہیں کہ آپ نے اسلام کے نام پر وطن حاصل کیا؟ اور مزید پوچھتے ہیں کہ آپ نے اپنے ملک میں اسلام کو نافذ کیوں نہیں کیا؟
قائد کا وژن صرف اور صرف ایک ایسی ریاست تھا جس میں ہم رہ کر اسلام کے مطابق زندگی گزار سکیں اور دنیا میں ایک نام پیدا کر سکیں-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :