پاکستان نے کیسے سُنہری موقع گنوایا!

ہفتہ 5 ستمبر 2020

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

کچھ دنوں پہلے یہ خبر پڑھی کے پاکستان کے آرمی چیف سعودی عرب کے دورے پر گئے ہیں اور اْس کی وجہ کچھ گردش کرتی خبریں تھیں کے حکومت نے اپنے سب سے قریبی دوست سعودی عرب کو اپنی حماقتوں کی وجہ سے ناراض کردیا ہے۔ ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ کیسے ہمارے آرمی چیف کو خود ایسے معاملات سنبھالنے پڑ رہے ہیں موجودہ حکومت کی وجہ سے جو اْن کے دائرہ کار میں نہیں آتے اور ہمیں آج سر جھکاکر ملنا پڑ رہا ہے۔

یہی اگر ہم سعودی عرب کی وہ پیشکش قبول کر لیتے جو ہمیں آج سے ٹھیک پانچ سال پہلے ملی تھی تو حالات آج قدرے مختلف ہوتے۔ وہ موقع بھی آج کے “عقلمند” حکمرانوں کی وجہ سے ہی ہاتھ سے گیا تھا کیونکہ پی۔ٹی۔آئی ہی اْس کی سب سے بڑی مخالف تھی وہ موقع کیا تھا آئیے جانتے ہیں۔

(جاری ہے)


پاکستان کی عوام کی برسوں کی قربانیوں، کٹھن تپسیاوں، تکالیف اْٹھانے اور سزاوٴں کو کاٹنے جو کہ اس قوم کو نیو کلئیر پاور حاصل کرنے کی وجہ سے ملیں تھیں کے بعد پاکستان کو ایک انتہائی بہترین موقع سنہ 2015 میں ملا کہ جب سعودی عرب نے پاکستان سے اپنی سکیورٹی کے معاملے میں مدد طلب کر کے گیند پاکستان کے کورٹ میں دے دیا۔

اور یوں طویل مدتی سیکیورٹی کی مضبوط گارنٹی کیلئے پاکستان سعودی عرب کا بہترین انتخاب ہو سکتا تھا۔اْس وقت ایران اور مغرب کے مابین بگڑتے ہوئے تعلقات کے امکانات کے بڑھتے ہی سعودی عرب خاموشی سے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مظبوط کر رہا تھا۔
اْس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اْس وقت سعودی عرب کے دورے پر تھے اور ریاض میں موجود تھے جہاں اْن سے یہ درخواست کی گئی کہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کو سعودی عرب کی سکیورٹی کی ذمہ داری دی جائے۔

میاں محمد نواز شریف نے سعودی عرب کو یقین دلوایا کہ وہ اِس معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں اور فوج کو اعتماد میں لے کر اس سلسلے میں ضرور کوئی مثبت نتائج حاصل کریں گے، مگر بدقسمتی سے ہمیشہ کی طرح ایک انتہائی سنہری موقع ہماری سیاسی جماعتوں کی سیاست کی نذر ہوگیا۔
یہی وہ موقع تھا جب اپنی اعلٰی تربیت یافتہ اور پیشہ ورانہ فوج کے ساتھ پاکستان سعودی عرب میں قدم رکھ کر اپنی سیکیورٹی سروسز کا دائرہ کار پوری مشرقی وسطٰی تک پھیلا کر مالی اور اسٹریٹجک فوائد حاصل کر سکتا تھا۔

پاکستان کا طویل عرصے سے سعودی عرب کے ساتھ قریبی رشتہ رہا ہے اور وہ اس ملک اور ایوانِ سعود کی حفاظت میں ملوث رہا ہے۔ پاکستان کے ایران سے سعودی عرب سے زیادہ دوستانہ تعلقات ہیں ، لیکن آخر کار اس کا زیادہ انحصار سعودی عرب پر ہی ہوتا ہے۔مثال کے طور پر ، سعودی عرب نے 1998 میں پاکستان کو تیل دیا تھا تاکہ وہ ایٹمی تجربہ کرنے پر پاکستان اپنے خلاف لگنے والی بین الاقوامی پابندیوں کا مقابلہ کرسکے۔


سنہ 2015 میں سعودی عرب میں تو پہلے سے ہی پاکستانی فوج تعینات تھی، حالانکہ یہ تعداد معمولی بتائی جاتی رہی تھی۔ غیر ضروری توجہ سے بچنے کے لئے ان معاملات کو سعودی انتظامیہ کی طرف عموماً خاموش ہی رکھا جاتا رہا ہے ، لیکن بہت سارے علماء اس بات پر ہمیشہ سے متفق رہے ہیں کہ سعودی عرب کے بارے میں پاکستان کی طرف سے کسی نہ کسی طرح کی سلامتی کا عزم ضرور موجود رہتا ہے۔

بہرحال ، پاکستانی فوج پہلے بھی 1979 میں ایران کے انقلاب کے بعد بھی سعودی عرب میں تعینات تھی اور اْسی سال باغیوں کی طرف سے مکہ میں مسجد الحرام کے محاصرے کے دوران سعودی انتظامیہ کی مدد کرنے کے لئے بھی موجود تھی۔
پانچ سال پہلے یہ بات واضح تھی کہ سعودی عرب تیزی سے بدلتی صورتِ حال کی وجہ سے پریشان تھا لیکن ساتھ ساتھ وہ عوامی سطح پر اس تاثر سے بھی بچنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے یا عالم اسلام میں تنازعات کا بیج بو رہا ہے۔

پاکستان پر انحصار کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ نظروں میں آئے بغیر اپنی ساکھ کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی سلامتی کو محفوظ بنا سکتا تھا۔ یقینی طور ان سب کے بدلے سعودی عرب پاکستان کے لیئے قانون میں نرمیوں اور مالی فائدہ دینے سے لے کر آنے والے وقت میں اپنے اثر و رسوخ کی بدولت مشرقِ وسطٰی کو بھی سیکورٹی سروسز بیچنے کی راہ ہموار کر سکتا تھا۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ مکہ مکرمہ پر عسکریت پسندوں کے قبضے کو روکنے جیسے حفاظتی معاملات جو غالباً سب کے لئیے قابلِ قبول ہوتے، اس میں پاکستان سعودی عرب کی مدد کرتا، سعودی ریاست کے مستقل وجود کی ضمانت کے علاوہ پاکستان کسی اور بڑے پیمانے پر شامل مت ہوتا۔ پاکستان کسی طور پر بھی ایران اور سعودی عرب کے مابین پراکسی جنگ میں مت الجھتا، بلکہ سعودی عرب کے قریب ہو کر اور اتحادی بن کر ان دونوں ملکوں کے درمیان رابطہ کار کے فرائض بہتر انداز میں سرانجام دے سکتا تھا۔ اگر اْس وقت سیاسی جماعتیں ذہنی کشادگی کا ثبوت دیتیں اور اس موقع کو ہاتھ سے نا جانے دیتیں تو آج ہم بھی ان ممالک سے برابری کی سطح پر بات کرتے نا کہ سر اور نظریں جھکائے اور منتیں کرتے نظر آتے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :