عمران خان سے مایوس اسٹیبلشمینٹ!

پیر 10 مئی 2021

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

آثار بتا رہے ہیں کے دال میں کچھ کالا ہے۔ حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کے شہباز شریف کی ضمانت نا ہونے پائے مگر شہباز شریف کی ضمانت بھی ہو گئی بلکہ ضمانت کے تفصیلی فیصلے میں شہباز شریف کو بہت بڑا ریلیف بھی مل گیا۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے میں یہ واضح طور پر لکھا ہے کہ جن رقوم کی ٹرانسفر کا الزام میاں شہباز شریف پر لگایا گیا اْس کا کوئی ثبوت نہیں ملا دوسرے اس کیس میں 110 گواہان ہیں جن کے بیانات کے بعد ہی کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے اور اگر اس کے بعد بھی شہباز شریف پر کوئی کرپشن ثابت نہیں ہوتی تو جتنے دن وہ جیل میں رہتے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ اب اس فیصلے کے بعد تجربہ کار وکلا کا کہنا ہے کہ کیس میں اب کوئی جان باقی نہیں رہ گئی۔


لاہور ہائی کورٹ سے سفر کی اجازت ملنے کے بعد شہباز شریف اپنے بھائی میاں محمد نواز شریف سے فائنل بات چیت کے لئیے ایک پیغام لے کر لندن جانا چاہتے تھے مگر عید کی چھٹیوں کا عذر پیش کرکے اْن کو سفر کرنے سے روک دیا گیا۔

(جاری ہے)

سعودی عرب میں موجود عمران خان نے شہزاد اکبر کو فون کر کے کہا کہ کچھ بھی ہوجائے مگر شہباز شریف کو لندن نہیں جانے دینا۔

کیونکہ عمران خان جانتے ہیں کے میاں شہباز شریف وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے میں مہارت رکھتے ہیں اور اْن کی ضمانت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اسٹیبلیشمینٹ کے ساتھ مکمل رابطے میں ہیں اور حکومت کے ہر طرح زور لگانے کے باوجود اْن کو ضمانت مل گئی اور حکومت کو اس محاذ پر ناکامی ہوئی۔ اور اب عمران خان یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ شہباز شریف اگر لندن وہ پیغام لے کر پہنچ جاتے ہیں تو عید کے بعد اْن کی حکومت کے لئیے بہت مشکلات کھڑی ہو جائیں گی۔

لاہور ہائی کورٹ سے سفر کی اجازت ملنے کے بعد شہباز شریف اچانک سفر نہیں کر سکتے تھے اور وہ یہ بات بخوبی جانتے تھے کیونکہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد انٹیرئیر منسٹری کی کمیٹی نے بیٹھ کر یہ فیصلہ کرنا تھا کہ شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ سے نکالا جائے یا نہیں۔ مگر چونکہ عید کی چھٹیاں ہیں اس لئیے یہ فوری طور پر ممکن نہیں تھا مگر کیا وجہ تھی کہ شہباز شریف جیسے تجربہ کار سیاستدان اور تین مرتبہ کے چیف منسٹر نے اتنی عجلت میں لندن جانے کا فیصلہ کر لیا؟ اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ کہ شہباز شر یف کو یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کے آپ رختِ سفر باندھئیے آپ کو کوئی نہیں روکے گا۔

مگر اْن کو سفر سے روک کر حکومت نے کچھ قوتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم یہ سب کچھ اتنی آسانی سے نہیں ہونے دیں گے۔ سعودی عرب کا دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اور عید کے بعد حکومت ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
پنجاب کے وزیراعلٰی عثمان بزدار اور ان کی حکومت کے وزرا کے خلاف نیب کے گھیرے کے تنگ ہونے کے بعد اب شہباز شریف کی ضمانت بھی ہونے سے عمران خان اسٹیبلیشمینٹ سے کافی خفا ہیں اور اْن کی اسٹیبلشمینٹ سے بڑھتی ہوئی دوری بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔

وجہ عمران حکومت کی نااہلی اور حکومتی معاملات میں ناکامی ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ اب عمران خان سے مایوس ہو چکی ہے۔ اور اسی لئیے وہ اب شہباز شریف سے روابط کو بڑھا رہی ہے اور یہ بات عمران خان اور اْن کے وزرا بخوبی جانتے ہیں۔اگر ہم غور سے ان تمام معاملات کا جائزہ لیں اور کڑی سے کڑی ملا کر ٹائمنگ کو دیکھیں تو ہمیں یہ بات سمجھ آجائے گی کہ اب آگے کیا ہونے جا رہا ہے اور عمران خان کی حکومت کے پاس کیا آپشن باقی بچے ہیں۔


اسد عمر کی عمران خان کی طرف سے اسمبلیاں توڑنے کی دھمکی، شہباز شریف کے ضمانت ہوتے ساتھ ہی پنجاب حکومت کے وزرا اسلم اقبال اور محسن لغاری کی ریکارڈ کے ساتھ نیب طلبی اور پھر پیشی، 2018-2019 میں چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دینے والے ذمہ داروں کے تعین کرنے کی کوشش۔ جہانگیر ترین کے خلاف شوگر اسکینڈل کیس میں اہم پیش رفت، پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کی جہانگیر ترین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی، پی ٹی آئی کے بڑھتے ہوئے اندرونی اختلافات ، بشیر میمن کے الزامات اور تحریکِ لبیک کے ساتھ نمٹنے کی حکومتی اسٹریٹیجی اور ان سب واقعات کا تیزی سے رونما ہونا اور ان سب عوامل نے حکومت کو ایک ایسی بند گلی میں لا کر کھڑا کر دیا ہے کہ جس سے حکومت کسی طرح باہر نکلتی نظر نہیں آرہی۔

اب ان سب کے بعد عمران خان کے پاس اگر کوئی آپشن بچا ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ اگر عمران خان اسمبلیاں توڑ کر صدارتی نظام کی طرف بھی جاتے ہیں تو اْن کو اسمبلی سے دو تہائی اکثریت درکار ہوگی جو میرے خیال میں موجودہ حالات میں ناممکن ہے۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ بھی اْن سے مایوس ہو چکی ہے اور ان کی حکومت کے اتحادی بھی آہستہ آہستہ ہوا کا رْخ جانچتے ہوئے ان سے مطالبات میں سختی لا رہے ہیں دوسری طرف شہباز شریف اب اسٹیبلشمینٹ کے پاس دوسری آپشن کے طور پر موجود ہیں۔

اگر وہ اپنے بھائی میاں محمد نواز شریف کو منانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اْس پیغام کے ذریعے جو وہ لندن جا کر میاں نواز شریف کو دینا چاہتے ہیں تو بہت جلد زبردست سیاسی ہلچل ہو گی جو شاید حکومت کی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔ کیونکہ اسٹیبلشمینٹ اب عمران خان کی مزید سپورٹ کرنے کو تیار نہیں ہے اور شدید دباوٴ میں ہے جس کی وجہ سے عمران خان اور اْن کے ساتھی اس وقت شدید پریشان ہیں اور اس کوشش میں ہیں کے میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف میں ملاقات نا ہونے پائے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :