28 مئی 1998، وطن کی مٹی گواہ رہنا!

ہفتہ 29 مئی 2021

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

16 دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جس دن سقوطِ ڈھاکہ پاکستان کی قوم کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہوا۔ ریڈیو اور ٹی وی پر پاکستان کی افواج کی طرف سے سرنڈر کرنے کی خبریں نشر ہو رہی تھیں اور پھر ٹی وی پر مشرقی پاکستان کی فوجی کمانڈ کے سربراہ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کو مشرقی بھارتی فوجی کمانڈ کے سربراہ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے پاکستانی 93 ہزار فوجیوں کے ساتھ سرنڈر کرنے کے معاہدے پر دستخط کرتے دکھایا گیا۔

جس کے بعد پورے پاکستان میں ہنگامے شروع ہوگئے جس کے بعد ان نشریات کو بند کر دیا گیا۔ مگر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے اداروں نے اسے نشر کرنا جاری رکھا۔ اُس وقت بیلجیئم میں موجود ایک 35 سالہ پاکستانی نوجوان جو بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن سے اپنی ڈاکٹریٹ آف انجینئیرنگ کی ڈگری ملنے کے منتظر تھے، اُنھوں نے بھی یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کئی دنوں تک ٹھیک سے سو نا پائے۔

(جاری ہے)

اس منظر نے اُنہیں کئی دنوں تک اضطراب میں مبتلا رکھا اور اپنی افواج کو دشمن کے سامنے اس بے بسی کے ساتھ ہتھیار ڈالتے ہوئے دیکھنے کے بعد وطن کی محبت میں سرشار اس محب وطن پاکستانی نے ایک فیصلہ کیا اور وہ یہ تھا کہ اپنے وطن اور اس کی افواج کو ایسا ناقابلِ تسخیر بنا دیا جائے کے اس کے بعد تاقیامت ملک پاکستان کے دشمن دوبارہ ایسا منظر دیکھنے کا بس خواب ہی دیکھتے رہیں۔

اور پھر اس عظیم نوجوان نے اپنی زندگی کا مقصد ناقابلِ تسخیر پاکستان کے خواب کی تکمیل میں گزارنا شروع کر دیا اس عظیم نوجوان کا نام فخرِ پاکستان اور حقیقی قومی ہیرو جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہے جنہیں ڈاکٹر اے لیو خان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
ڈاکٹر اے کیو خان نے انجینئر نگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد مئی 1972 میں ایمسٹرڈیم میں فزیکل ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری میں ملازمت اختیار کی۔

اس وقت ایمسٹرڈم کی فزیکل ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری "الٹرا سینٹری فیوج نیدر لینڈ" کی ایک ذیلی ٹھیکیدار تھی ، جو سہ ملکی یورپی یورینیم کی افزودگی سینٹرفیوج کنسورشیم جسے “یورینکو” کہتے تھے کی ایک ڈچ پارٹنر تھی۔ اس کا قیام 1970 میں نیدرلینڈ نے ملک کے جوہری بجلی گھروں کو افزودہ یورینیم کی فراہمی کی یقین دہانی کے لئے کیا تھا۔ یہ کنسورشیم برطانیہ ، جرمنی اور ہالینڈ کے اشتراک سے مل کر بنایا گیا تھا۔

اسی ادارے کی برف سے ڈاکٹر اے کیو خان کو المائلو (نیدرلینڈز) میں ایک ڈچ افزودگی کی لیبارٹری میں بھی بھیجا گیا تھا ، جہاں انہیں مبینہ طور پر اعلی درجہ بند تکنیکی دستاویزات کا ترجمہ کرنے کا کام بھی سونپ دیا گیا تھا جس میں“سینٹری فیوجز “ کو تفصیل سے بیان کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر اے کیو خان کے ساتھ کام کرنے والے قریبی ساتھی یہ بات جانتے تھے کہ اُن کے دماغ میں کچھ چل رہا ہے مگر وہ ہر بات سے بے پرواہ اپنے مشن میں مصروف تھے کے وہ زیادہ سے زیادہ تجربہ حاصل کریں جس کے بعد وہ مُلک کو ناقابلِ تسخیر بنانے کا وہ خواب پورا کرسکیں۔

اہلِ مغرب آج تک اُن پر یہ الزام لگاتے ہیں کے اُنہوں نے ایٹم بم سے متعلق اہم معلومات چرائیں جبکہ حقیقت کچھ یوں ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام اور کتابوں میں موجود ہیں جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیا تھاـ۔


بہر کیف اپنی ریسرچ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد 17 ستمبر 1974 کو عزم و استقامت کے اس مینار نے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے اپنے آپ کو پاکستان کے نیو کلئیر پروگرام کے لئیے پیش کیا اور یہ تجویز دی کہ کی یورینیم افزودگی کے ذریعے نیوی کلئیر طاقت کا حصول پلوٹونیم کے ذریعے نیوکلئیر طاقت کے حصول سے بہتر تھا جو ایٹمی ری ایکٹروں اور دوبارہ پروسیسنگ پر انحصار کرتا تھا۔


جس کی بعد دسمبر 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو کی ڈاکٹر اے کیو خان کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں ذوالفقار علی بھٹو نے اُن کو گرین سگنل دیا اور اپنے تعاون کی مکمل یقین دہانی کروائی اور درخواست کی کہ وہ اپنے کردار کی ادائیگی کے لئیے جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں اس کی تفصیلات مہیا کر دیں اس کے بعد کام شروع کر دیں۔ جس کے بعد 15 دسمبر 1975 کو سقوط ڈھاکہ کے ٹھیک 4 سال کے بعد ڈاکٹر اے کیو خان اپنے ُملک کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے اپنے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئیے اپنی زوجہ اور دو دختران کے ہمراہ ہالیںنڈ سے پاکستان کی طرف روانہ ہو گئے اور 31 مئی 1976 کو انہوں نے اینجنیئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی جس کو بعد میں یکم مئی 1981 کو ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز کا نام دیا گیا۔


پاکستان آنے کے بعد اُن کو کیسی مشکلات درپیش آئیں یہ پھر کسی اور کالم میں تفصیل سے ذکر کروں گا۔
بہرحال اس مردِ مجاہد نے تمام تکالیف کے باوجود اس مُلک کو ناقابلِ تسخیر بنانے کا اپنا عہد اور خواب پورا کر دکھایا اور 28 مئی 1998ء میں پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا جس سے پاکستان دُنیا کے نقشے پر ساتویں ایٹمی طاقت بن کے ابھرا جس نے تمام عالمی طاقتوں کو ہلا کر رکھ دیا اور اُن کو یہ باور کروا دیا کہ اب ملک پاکستان تاقیامت ناقابلِ تسخیر بن گیا ہے۔

بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی۔ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز نے نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کیلئے ایک ہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائیل سمیت چھوٹی اور درمیانی رینج تک مارکرنے والے متعدد میزائیل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
آج اگر پاکستان دُنیا کے نقشے پر موجود ہے تو وہ اس میں اس عظیم مردِ مجاہد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک بڑا کردار موجود ہے جو انہیں اللہ کی طرف سے ملا۔


جنرل ریٹائرڈ حمید گُل مرحوم اکثر ایک بات کیا کرتے تھے جس کی شاید بہت کم لوگوں کو سمجھ آتی تھی اور وہ یہ تھی کہ “ 9/11 بہانہ ہے افغانستان ٹھکانہ ہے اور پاکستان نشانہ ہے”
درحقیقت بھارتی ایٹمی تجربہ کروا کر کچھ مقاصد لئیے گئے تھے اور وہ یہ تھے کہ ورلڈ آرڈر نکالنے والی عالمی طاقتیں یہ جاننا چاہتی تھیں کہ “پاکستان نیو کلئیر ٹیکنالوجی حاصل کر چکا ہے یا نہیں اور اگر کر چکا ہے تو کیا اس کا اظہار کرے گا یا نہیں” اُس وقت کے وزیرِ اعظم میاں محمد نوازشریف پر بھارتی ایٹمی تجربے کے بعد ہر طرف سے شدید دباؤ تھا ایک طرف عوام کی طرف سے بھارت کو جواب دینے کا دباؤ تو دوسری طرف عالمی طاقتوں کی طرف سے جواب نا دینے کا دباؤ مگر درحقیقت میاں محمد نوازشریف جانتے تھے کہ اصل کہانی تو ایٹمی تجربے کے بعد شروع ہونی تھی اور وہ یہ تھی کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے اور یہ راز اب راز نہیں رہے گا اور پاکستان ایسی عالمی سازشوں کو گڑھ بن جائے گا کہ اس کو پوری دُنیا کی بڑی طاقتوں کی طرف سے نشانہ پر رکھ لیا جائے گا اور وقت نے ثابت کیا پاکستان کی طرف سے ایٹمی تجربات کرتے ساتھ ہی عالمی طاقتوں کی طرف سے پاکستان کے خلاف سازشوں کا آغاز ہوا اور میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو جنرل پرویز مشرف کے ذریعے برطرف کر کے پہلے اُن کو جیل میں ڈالا گیا اور پھر جلا وطن کیا گیا ساتھ ساتھ ڈاکٹر اے کیو خان پر ایٹمی فارمولوں کو دوسرے ملکوں کو بیچنے کا الزام لگا کر اُنہیں حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جو اللہ کے فضل و کرم سے ناکام ہوئی اور دوسری طرف 9/11 کا ڈرامہ رچا کر افغانستان پر حملہ کر کے پاکستان کے خلاف پراکسی وار کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں پاکستان کو خودکش حملوں کے تحفے ملنے شروع ہو گئے جو 14 سال تک جاری رہے۔

مگر یہ بات دشمن اچھی طرح جان چکا تھا اور وہ یہ کہ وہ پاکستان پر سیدھا حملہ نہیں کر سکتا صرف پراکسی وار کے ذریعے ہی کھوکھلا کر نے کی کوشش کر سکتا ہے کیونکہ 28 مئی 1998 کے بعد پاکستان تا قیامت ناقابلِ تسخیر بن چکا ہے۔ اب دشمن صرف پاکستان پر براہِ راست حملہ کرنے کا صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے اور خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں!
”ہے جرم اگر وطن کی مٹی سے محبت
یہ جرم سدا میرے حسابوں میں رہے گا“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :