اوورسیز پاکستانیز اور قومی اسمبلی!

پیر 28 جون 2021

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

گزشتہ روز پہلی مرتبہ کسی سیاستدان اور کسی پارٹی کے سربراہ نے کھل کر اوورسیز پاکستانیوں کے حقوق کے لئیے بات کی اور یہ باور کروایا کے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو صرف ووٹ کا حق دینے سے اْن کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اْنہیں پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں حقِ نمائندگی بھی ملنی چاہئیے۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حق نمائندگی کا نیا فارمولا پیش کیا ہے جس کے تحت اوورسیز پاکستانیوں کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مخصوص نشستوں کی تجویز دی گئی ہے۔

شہباز شریف کے مطابق بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے نمائندے پارلیمان میں ان کی نمائندگی کرتے ہوئے مسائل کی نشاندہی کر سکیں گے۔

(جاری ہے)

شہبازشریف نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے قومی اسمبلی میں پانچ سے سات اور سینیٹ میں دو نشتیں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے مختص کرنے کی تجویز دی ہے جو کہ انتہائی خوش آئند بات ہے اور میرے خیال میں حکومت کو اب انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہئیے اور اس ایشو پہ سیاست کرنے کی بجائے اس تجویز کو خوش آمدید کہنا چاہئیے۔

میں پہلے بھی کئی پروگراموں میں یہ بات کر چکا ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے کئی کالموں میں اس بات پہ زور دے چکا ہوں کہ اوورسیز پاکستانیز کو قانون سازی کے ذریعے پاکستان قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی ملنی چاہئیے جس کے ایک نہیں کئی فائدے ہوں گے، مثال کے طور پر امریکا اور یورپی ممالک میں بسنے والے پاکستانی ان ممالک کی قومی اسمبلیوں اور شہری حکومتوں میں موجود ہیں یا رہ چکے ہیں، اْن کے تجربات سے بہت استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

اوورسیز پاکستانی نا صرف اْن ممالک کے ساتھ اچھے اور مظبوط تعلقات کی بنیاد بن سکتے ہیں بلکہ دْنیا کے وہ تمام ممالک جہاں جہاں پاکستانی سکونت پذیر ہیں اْن ممالک کے ساتھ پاکستان کے کاروباری روابط مظبوط بنیادوں پر استوار کروانے میں بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ دوسرے ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ پاکستان کو بہت سے خارجی معاملات میں اس وقت عالمی تنہائی کا سامنا ہے اور اگر اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی ملتی ہے تو اس سے ان تمام اوورسیز پاکستانیوں کی ان کوششوں کو دوام ملے گا جو بیرونِ مْلک رہتے ہوئے پاکستان کے بہتر اور مثبت امیج کے لئیے کام کر رہے ہیں۔

کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں سکونت پذیر پاکستانی وہاں کی روائیتی اور ثقافتی اقدار سے مکمل طور پر آشنا ہیں اور مقامی زبانوں پر عبور حاصل رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مختلف حیثیتوں میں مقامی حکومتوں میں موجود افراد کے ساتھ اپنے تعلقات کو بروئے کار لا کر پاکستان کی مظبوط خارجہ پالیسی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔اس وقت بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو تقریباً دو برس بیت چکے ہیں مگر بھارت پر عالمی برادری کا دباوٴ ڈلوا کر مذاکرات کی میز پر لانے کے لئیے ہم اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں 16 ممالک کی حمایت تک کا ووٹ نہیں لے سکے جو کہ پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اس کے علاوہ اب افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد جو صورتِ حال پیدا ہوگی وہ بہت پیچیدہ ہو گی۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ خاموشی اور غیر جانبداری اختیار کر کے اور سرحد بند کرکے اس مسئلے سے چھٹکارا حاصل کر لے گی تو یہ محض حکومت کی خام خیالی ہے۔ اس طرح بھارت کو افغانستان میں اپنے قدم جمانے کا بھرپور موقع ملے گا جس کے بعد افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا بھارت کو بھرپور موقع ملے گا۔

دوسری طرف جوں جوں امریکی فوج کے انخلا کا وقت قریب آرہا ہے ویسے ویسے ہی طالبان کا افغانستان پر کنٹرول بڑھتا جا رہا ہے۔ اب ایسے وقت میں جب پاکستان کو اندرونی اور بیرونی چیلنجر کا سامنا ہے حکومتِ پاکستان کو مثبت کردار ادا کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف کی اوور سیز پاکستانیوں کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی دینے کی تجاویز پر غور کرنا چاہئیے اور قانون سازی کے ذریعے ان تجاویز پر عمل درآمد کرنا چاہئیے تاکہ اوورسیز پاکستانی بھی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی حاصل کرنے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی اور پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کر سکیں۔

ہم سب بس امید ہی کر سکتے ہیں کہ یہ تجاویز سیاست کی نذر نہیں ہو گی، باقی جو اللہ کو منظور!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :