احساس!

بدھ 13 فروری 2019

Khalid Imran

خالد عمران

”کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کفر ہے… تو جناب اس” کفر“ پر ایمان لانا پڑے گا۔“ مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان نے یہ بات لاہور میں اپنے آخری خطاب میں ہلکے پھلکے انداز میں کہی تھی،مقام تھا لٹن روڈ کا ہمدرد ہال اور تقریب تھی امیرشریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمة اللہ علیہ کی یاد میں، جس کا اہتمام قائدِ احرار سید عطاء الموٴمن شاہ بخاری رحمة اللہ علیہ نے کیا تھا۔

شاعرِ ختمِ نبوت سید امین گیلانی اور صاحبزادہ طارق محمودمرحوم کو بھی آخری باراسی تقریب میں سنا تھا۔ ہمیں یہ بات یوں یاد آئی کہ آج کل پارلیمانی اور صدارتی نظام پر بہت بحث ہورہی ہے اور کچھ حلقے موجودہ پارلیمانی نظام سے دل برداشتہ ہوکر صدارتی نظام کی وکالت میں جتے ہوئے ہیں۔تو عرض ہے کہ جب تک 1973ء کے آئین کے تحت پارلیمانی نظام نافذ ہے، اس کے تقاضے تو بہرحال پورا کرنا پڑیں گے۔

(جاری ہے)

اس سے قطع نظر کہ اس نظام سے قومی و ریاستی فلاح کی راہ کب نکلتی ہے؟
صدر مملکت عارف علوی نے گزشتہ جمعرات کو آل پاکستان نیوز پیپرز اینڈ ایڈیٹر فورم اور پاکستان جرنلسٹ فورم کے ایک وفد سے ملاقات میں واضح کیا کہ گورننس موٴثر اور شفاف ہوتو کوئی بھی حکومتی نظام برا نہیں۔ کسی نے بہت پہلے کہا تھا کہ نظام تو چوروں کا بھی برا نہیں ہوتا، اگر چلانے والوں کی ترجیح اول اپنے طبقے کے مفادات کا تحفظ ہو۔

گویا حکومت اگرریاستی آئین کے تحت قومی مفادات کو ترجیح اول بنائے تو پارلیمانی نظام بھی عوامی مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی نکتے کو اگر مدنظر رکھا جائے تو آئین کے تحت موٴثر قانون سازی بھی کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس قانون سازی کے لیے حکومت کو بہرحال برداشت اور وسعت قلبی سے کام لینا پڑتا ہے، کیونکہ ذمہ داری کا زیادہ بوجھ اس کے کندھوں پر ہوتا ہے۔

موجودہ حکومت کا چھٹا مہینا جاری ہے اور جن اقدامات کو ہیجان اور ناتجربہ کاری کی بناء پر حکومت نے ابھی تک اہمیت نہیں دی، اب سلسلے میں مزید تاخیر ریاستی معاملات میں مشکلات ہی نہیں پیچیدگیاں پیدا کرنے کا سبب بننا شروع ہوگی۔ غالباً اس امر کا احساس تحریکِ انصاف کو دلایا جارہاہے۔
نوے دن کے اندرقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل، آئینی تقاضا تھا،لیکن اس میں 5 ماہ 22دن لگے اور36 کمیٹیاں بناکر 5 فروری کو سرکاری چھٹی کے دن ان کمیٹیوں کا نو ٹیفکیشن جاری کیا گیا۔

پارلیمانی نظام میں قائمہ کمیٹیوں کی اہمیت اور کردار مسلمہ ہے، ان کمیٹیوں میں حزبِ اختلاف کے ارکان نہ صرف شامل ہوتے ہیں بلکہ کئی کمیٹیوں کی حساسیت کی وجہ سے ان کی سربراہی اپوزیشن ارکان کو دی جاتی ہے۔اطلاعات کے مطابق 36 میں سے 15کمیٹیوں کی سربراہی اپوزیشن کو ملے گی، کون نہیں جانتا کہ تمام تر حکومتی مخالفت کے باجود قومی اسمبلی کی پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی کی سربراہی ن لیگ کے قائد میاں شہبازشریف کو ملی۔

وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فوادحسین چودھری نے حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے اس تقرری کی بہت مخالفت کی تھی، لیکن اب قومی اسمبلی میں اطلاعات ونشریات کی قائمہ کمیٹی کی رکنیت بھی میاں شہبازشریف کو مل گئی ہے۔ اسی طرح سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق جو نیب مقدمات کی وجہ سے زیرحراست ہیں، وہ ریلوے کی قائمہ کمیٹی کے رکن نامزد کردیے گئے ہیں۔


ہم نے عرض کیا نظام کو چلانے کے لیے حکومت کو بہرحال صبر وتحمل اور برداشت کا زیادہ مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، ان کمیٹیوں کی تشکیل سے یہ امر مزید واضح ہوگیا ہے۔ آپ جن لوگوں کو کرپٹ، لٹیرے قرارے دے کر جیلوں میں دیکھنا چاہتے ہیں، اگر لوگوں نے ووٹ دے کرانھیں پارلیمان میں بھیجا ہے تو آپ کو تمام تر مخالفت اور تحفظات کے باوجود اُن سے مل کر ہی پارلیمانی کاروبار چلانا ہے اور اپنے وژن کی تکمیل کے لیے اگر آپ کوئی قانون سازی یا آئین میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے بھی آپ کو اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا، اس امر کو جتنی جلدی حکومتی پارٹی کے عمائد سمجھ لیں، اتنا ہی نہ صرف ان کے لیے بلکہ مسائل اور بحرانوں میں گھری ریاست اور قوم کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

بے شک آپ کسی کو این آرو نہ دیں لیکن پارلیمانی اور حکومتی کاروبار چلانے کے لیے تو اپوزیشن سے تعلقات ومعاملات بہتر بنائیں۔
لگتا ہے وزیراعظم عمران خان کو اس امر کا احساس دلایا گیا ہے جو انہوں نے اپنے وزراء کو گھسی پٹی باتیں کرنے اور اپوزیشن کی ہر بات کا جواب دینے سے رکنے کی ہدایت کی۔ اب دیکھنا ہے کہ وزیراعظم کی اس ہدایت پر کتنا عمل ہوتاہے۔


انور چراغ کا کہنا ہے کہ جو وزراء حقیقی طور پر عمران خان کو اپنا قائد سمجھتے ہیں، وہ تو اس ہدایت پر عمل کریں گے، لیکن جو کسی اور طرف سے ہدایات لیتے ہیں اور انہی ہدایات کی وجہ سے تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے ہیں، وہ خان صاحب کی بھلا کب مانیں گے؟
ہیجان میں مبتلا اور یوٹرن کی ماہر حکومت کے سربراہ کو پنجاب کی وزارت علیا کے حوالے سے بھی غالباً احساس دلایا گیا کہ بس صاحب بہت ہوگیا، جس کو گیند ہی پکڑنا نہیں آتا، اس کو وسیم اکرم بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر کراتے کراتے کہیں اوربہت کچھ آپ کے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔


گزشتہ دنوں بلوچستان میں ”باپ“ کی طرف سے ناراضی کا اظہار، پنجاب میں ق لیگ کے حافظ عمار یاسر کے وزارتِ معدنیات سے استعفاء کے بعد چودھری پرویز الٰہی کاپنجاب اسمبلی سے دور دور رہنا اور سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان کا نیب کی حراست میں جانا شاید احساس دلانے کے لیے ہی تھا۔ اب صورتِ حال کچھ یہ ہے کہ ”باپ “ کاوفد وزیرِ اعظم سے ملاقات کے بعد بظاہرمطمئن ہوکر بلوچستان جاچکا ہے، چودھری پرویزالٰہی اور حافظ عمار یاسر عمرے کے لیے چلے گئے ہیں، وزیراعظم عمران خان نے عبدالعلیم خان کی گرفتاری کے حوالے سے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔

سیالکوٹ سے منتخب ہونے والے ق لیگ کے باوٴ رضوان کو صوبائی وزیر بنا دیا گیا ہے اوراطلاعات کے مطابق عمرے سے واپسی پرحافظ عمار یاسر بھی استعفاء واپس لے کر پنجاب کابینہ کی رونق بڑھائیں گے۔ گویا سرپرستوں کو محسوس کرا دیا گیا ہے کہ حضور! آپ جو احساس دلانا چاہتے ہیں، وہ ہوگیا ہے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :