طالبان سے توقعات

منگل 7 ستمبر 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

اِس پیرانہ سالی میں کرُسی اقتدار پر برَاجمان ہوتے ہوئے امریکی صدر کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں ایسی ذلت آمیز شکست اِن کا مقدر قرار پائے گی،وہ اور اِن کے پیشرو سپر پاورز کے فریب میں مبتلا تھے،ان کا خیال تھا کہ گوانتے نامہ کی جیل کے پنجروں میں بندسادہ لوگ کس طرح پھر سے بر سراقتدار آسکیں گے،نہ تو اِنکے پاس ڈیزی کٹر بم تھے نہ ہی عصر کا جدید ترین اسلحہ انکی دسترس میں تھا،دنیا کی جدید ٹیکنالوجی سے بھی یہ نابلد ہیں،لیکن جب قسمت میں بدنامی لکھی ہو تو عصا بھی خوف کی علامت بن جاتا ہے اور بڑے بڑے فرعونوں کے بل کس نکال دیتا ہے۔


وہ ٹولہ جو امریکہ کی ایماء پر افغانستان میں مسند اقتدار پر قابض تھا، اس نے بھی بے وفائی کرنے میں بڑی عجلت سے کام لیا،جن پے تھاتکیہ وہی پتے ہوا دینے لگے کے مصداق سابق افغانی صدر پر صادق آتے ہیں،انھوں نے تو اپنے قبیلہ، کلچر اور تہذیب کی بھی پرواہ نہ کی،اِس طرح تو بڑے مجرم بھی راہ فرار اختیار نہیں کرتے،جس طرح موصوف” نان ونفقہ“ کے ساتھ اپنی سیکورٹی کے حصار میں طیارے پر سوار ہوئے ، وہ سیکورٹی فورس جس پر لاکھوں ڈالر خرچ ہوئے ،انڈیا میں دی گئی تربیت بھی کام نہ آسکی، لاکھوں تعداد میں وہ فوج ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو گئی جن پر انھیں بھروسہ تھا۔

(جاری ہے)


وہ انکل سام جو دو متحارب ممالک میں اپنا اَسلحہ بیچنے کی بڑی ”نیک شہرت“ رکھتا ہے،اس سے اذیت ناک ہار برداشت نہ ہو سکی تو اس کی افواج نے کابل ائر پورٹ پر موجود اپنے ہی سامان حرب کو ناکارہ کردیا۔
دلچسپ امر یہ ہے بھی کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جس بے دردی سے نہتے افغان عوام پر بارود کی بارش کی، انکے پر عرصہ حیات تنگ کیا،ہجرت کرنے پر انھیں مجبور کیا، آج وہی ارباب اختیار طالبان سے انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت مانگ رہے ہیں۔

حالانکہ نیٹو انتظامیہ کے ہاتھ لاکھوں مسلمانوں کی شہادت سے رنگین ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ نائین الیون کے بعد امریکہ کے پالیسی ساز اپنی اداؤں پر غور کرتے،بغیر تحقیق کے مسلم ممالک پر چڑھ دوڑنے کی بجائے اس سانحہ کے محرکات کا جائزہ لیتے تو صورت حال بہت مختلف ہوتی،کیا یہ اِنکے علم میں نہیں ،انکے ہی سماج سے اہل دانش نے 9/11 واقعہ کو مسلمانوں کے خلاف کھلی سازش قرار دے دیا ہے۔


وہ بھاری بھر سرمایہ جو زندہ انسانوں کو اپاہج کرنے،زندہ درگور کرنے پر صرف کیا ہے وہ اگر افغانیوں کی تعلیم ، صحت، ٹرانسپورٹ پر خرچ کیا جاتا ، انھیں مکمل سماجی ڈھانچہ فراہم کیا جاتا تو آج ان کے دل میں نفرت کی بجائے محبت بھرے جذبات سے لبریز ہوتے، ہندوستان نے اپنے تزوایاتی شراکت دار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھی افغانستان میں سرمایہ کاری کی لیکن اِسکے عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں تھے، عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جس طرح اس کے سفارت خانے ارض وطن کے خلاف بر
 سر پیکار رہے ،انھیں بھی اب اپنا سرمایہ ڈوبنے کا قلق ہے۔


امریکہ بہادر نے اپنی طرف سے تو تدوین آئین کے بعد سمجھ لیا تھا کہ اب افغانستان میں جمہوریت پھلتی پھولتی رہے گی،لیکن وہ
 اس قبائلی کلچر سے نابلد ہے جہاں سماج کے بڑے بر بنائے عہدہ بڑے رتبے پر فائز ہوتے ہیں، ان کا فیصلہ حکم کا درجہ رکھتا ہے، شنید ہے کہ اس فرد کو جسے ہمارے سابق کمانڈونے تمام اخلاقی ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شرم ناک حالت میں امریکہ کے حوالہ کیا تھا انھیں پھر سے پاکستان میں افغانستان کا سفیر مقرر کیا جارہا ہے، نجانے اس کے بعد کمانڈر جی کے کیاجذبات ہوں گے جو اِس وقت دیار غیر میں دوسرے درجہ کے شہری کے طور پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔


ایک طرف امریکی انتظامیہ اپنی شکست کی خفت مٹانے میں مصروف ہے تو دوسری طرف سیکولر طبقہ افغانی خواتین کے حقوق کے غم میں غلطاں ہے، نجانے یہ ”مخلوق“ اُس وقت کہاں تھی جب اتحادی افواج تورا بورا پر بم برسا کر خواتین کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کر رہے تھے، کاش! انھوں نے اُس وقت ظلم اور بربریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہوتی تو آج ان کی بات میں کچھ وزن ضرور ہوتا۔


وہ تمام ممالک جو افغانستان کی تباہی میں برابر کے شریک رہے ہیں، وہ بھی طالبان سے اچھے طرز حکومت، مثالی انسانی حقوق، اعلیٰ نظام تعلیم، میعاری صحت کی سہولتوں کی توقع رکھ رہے ہیں، لیکن سابقہ مگر بدعنوان حکومت سے باز پرس کرنے کو تیار نہیں۔
اس وقت طالبان اپنی حکومت تشکیل دینے میں مصروف ہیں، ایک جنگ زدہ ملک کو بہت سے معاشی مسائل کا سامنا ہو گا،کسی ملک کا امن اس کی خود انحصاری سے عبارت ہے، اس کی قیادت کی طرف سے پیغامات بدلے ہوئے طالبان کا پتہ دیتے ہیں، جن کے نزدیک سب سے بنیادی معاملہ امن کی بحالی ہے، سابقہ دور میں بھی انھیں اسی بناء پر شہرت ملی تھی ،لیکن اس وقت انھیں ایک بہتر ملک ملا ہے جس میں سماجی ترقی کے سفر کا آغاز ہے، اس لئے توقع کی جاسکتی ہے کہ طالبان قیادت اپنی عوام کی توقعات پر پورا اترے گی، سخت گیر سزائیں نافذ کر نے سے قبل نسل نوکو روزگار دے گی۔

سب پر تعلیم کے دروازے کھولے گی، عالمی برادری کی توقعات پر پورا اترنے کی کاوش کرے گی، ہمسایہ ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات کو فروغ دے گی۔اگر عالمی برادری یورپی یونین خواہاں ہیں کہ طالبان ایک مہذب سرکار کے علمبردار بنیں تو انھیں وسائل کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا، جو افغان عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کر نے کے لئے ضروری ہے۔


گمان کیا جاتا ہے کہ نئی افغان حکومت خارجی معاملات کے لئے چین پر زیادہ انحصار کرے گی،جو کہ خوش آئند ہے تاہم یہ احتیاط لازم رہے کہ اس کی سرزمین کسی سرد جنگ کا پھر سے ایندھن نہ بنے، سابقہ ادوار میں افغانی قوم نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔
سیکولر طبقہ اس زُعم میں مبتلا ہے کہ یہ امریکہ کی شکست نہیں کیونکہ وہ توآرام کی نیند سو رہے ہیں جب کہ افغانی بہت سے مسائل سے
 دو چار ہیں، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس عہد نجانے یہ کیوں لا علم ہیں ہر نئی صبح کو ہر امریکی افغانستان سے انخلاء کا مطالبہ کرتا رہا ہے، اس شکست کے بعد تو اِنکی نیند اڑتی دکھائی دے رہی ہے، باوجود اس کے کہ طالبان نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عام
 معافی کا اعلان کیا ہے۔


طالبان کی فتح کا زیادہ صدمہ تو مودی سرکار کو ہوا ہے جس نے بد نیتی پر مبنی سرمایہ کاری اِنکے ملک میں کر رکھی ہے، اس سے زیادہ دکھ تو کشمیر کا بھی ہے جس کے حوالہ سے طالبان نے کشمیری مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کیا ہے،یہ بیان بھی ہندو بنیاء پر بجلی بن کر گرا ہے،اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ دوبارہ طالبان بر سر اقتدار آسکتے ہیں ، اس لئے یہ خطہ میں بد امنی پھیلانے، دہشت گردی کو ہوا دینے میں شیر بنتا رہا ہے۔


تمام تر نا انصافیوں کے باوجود طالبان کا پھر سے برسر اقتدار آجانا کسی معجزہ سے کم نہیں، لیکن اس سے بڑا معجزہ جو عالمی برادری، ہمسایہ ممالک کو مطلوب ہے وہ یہ کہ پھر سے نائین الیون کی تاریخ نہ دہرائی جائے،اُمید واثق ہے کہ طالبان کی حکومت انکی توقعات پر پورا اترے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :