نیب نیازی گٹھ جوڑ

پیر 27 جولائی 2020

Khurram Awan

خرم اعوان

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ویسے تو دو سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن آج بھی عوام سے کئے گئے وعدے ادھورے ہیں مگر ابھی بھی قوم کو سر سبز باغ دکھا کر ایک ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خان صاحب اپنی ہر کہی ہوئی بات سے تو یوٹرن لے چکے ہیں اور اس کو بڑے لیڈر ہونے کی عادت اور طریقہ گردانتے ہیں اسی اصول کے ساتھ وہ ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار بھی ہے مگر ایک بات جس پر خان صاحب اٹل ہیں وہ ہی" احتساب" اور وہ بھی شاید اس لئے کہ یہ انہوں نے خود نہیں کرنا تھا اس کیلئے ملک میں نیب کا ادارہ موجود ہے۔

خان صاحب شاید اس سے بھی یو ٹرن لے لیتے مگرخان صاحب نے اپنی بائیس سالہ سیاسی جدو جہد میں صرف یہی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ صرف وہ صادق اور امین ہیں، باقی سب مالی اعتبار سے کرپٹ اور پاکستان کو صرف مالی کرپشن کا مسئلہ درپیش ہے آج عمران خان صاحب اپنے انہی الفاظ کے قیدی بن چکے ہیں ۔

(جاری ہے)

خان صاحب کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی اپوزیشن دو نعرے تواتر سے لگارہی ہے ایک نا اہل اور نالائق حکمران اور دوسرا نیب نیازی گٹھ جوڑ ،نا اہل اور نالائق تو اپنی جگہ لیکن یہ نیب اور نیازی کے گٹھ جوڑ والی آوازیں ہضم نہیں ہوئیں کیونکہ اگر نیب کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو نیب نے کس کس سے گٹھ جوڑ نہیں کیا ۔

نیب کو ایک ایسا ادارہ بنایا گیا تھا جو کسی کی زیر اثر نہ ہو مگر نیب ہمیشہ سے ہی اقتدار کی مسند پرمتمکن لوگوں کے زیر اثررہا ہے پھر چاہے وہ مشرف ہو ں،نواز شریف ہوں یا آصف علی زرداری اسی طرح موجودہ حکومت کا بھی اثر و رسوخ کہا جاتا ہے۔
آج تبدیلی کا نعرہ خان صاحب کے لیٴے ایک مذاق بن چکا ہے کیونکہ اپنے کئے گئے دعوں سے پیچھے ہٹتے ہوئے ماضی کے حکمرانوں کی روش اختیار کر کے خان صاحب نے خود ہی تبدیلی کا دھڑن تختہ کر دیارہی سہی کسر عدالتوں نے نیب میں مطلوب ملزمان کو ضمانتیں دے کر پوری کر دیں ۔

کچھ عزیز کہتے ہیں کہ نیب کی غلطیوں کا بوجھ عمران خان پر نہ ڈالیں ،مگر میرا سوال ہے کہ اگرعمران خان پر نہ ڈالیں تو کس کے سر پر ڈالیں ؟ کون ہیں ذمہ دار ؟ دو سال میں کیا خان صاحب ایک احتساب کا ادارہ نہیں ٹھیک کر پائے۔اگر خان صاحب نیب کا استعمال نہیں کر رہے تو کون ہے جو نیب کو خان صاحب کے سیاسی مخالفین کو زچ کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے؟ کیا نیب پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں؟حال ہی میں خواجہ برادران کی ضمانت کے تفصیلی فیصلے میں سپپریم کورٹ کے یہ الفاظ تھے کہ پولیٹیکل انجئینرنگ کے لئے نیب کا ادارہ استعمال ہوتا ہے اس کے بعد کیا حیثیت رہ جاتی ہے اس احتساب کے نظام کی مگراحترام سے جان کی امان پاتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ سے رہنمائی چاہتا ہوں کہ اس فیصلے کہ آخری پیراگراف میں یہ سب صرف observationقرار دے کر معاملے کو پھر سے غلام گردشوں میں چھوڑ دیا جبکہ معزز عدلیہ یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ جب تک بہت واضح الفاظ میں حکومت یا قانون سازی کے ادارے کو حکم نہیں دیا جائے گا کچھ نہیں ہو گا لہذا اگر یہ ابہام نہ ہوتا تو فیصلے کا اطلاق کسی اور طرح ہوتا۔

لہذا ن لیگ جو اس فیصلے کو عدالتی نظیر کے طور پر دیکھ رہی تھی شاید مایوس ہو ،اور نہ ہی چئیرمین نیب پر لازم ہے کہ وہ اس فیصلے کی روشنی میں استعفی دیں ۔ حکومت پر بھی لازم نہیں کہ وہ اس فیصلے پر سنجیدہ ہو اور نیب رولز میں ترامیم کیلئے کوشش کرے کیونکہ یہ فیصلہ صرف ایک ہی کیس کے حوالے سے ہے۔
کچھ دوستوں نے تو نیب کو تالا لگانے کا مشورہ دیا اور کچھ دوستوں نے بھارت کی مثال دی کہ وہاں کے حکومتی ما تحت ادارے کس طرح سیاسی اثرو رسوخ سے تفتیش کو روکنے اور اثر انداز ہونے میں استعمال ہوتے ہیں ۔

عرض کرنا چاہوں گا کہ وہاں ادارے جو بھی کر رہے ہیں مگر کیا نیب جیسا کوئی ایک ادارہ بنایا گیا یعنی اگر کوئی ادارہ ٹھیک نہیں کام کر رہا تو اس کو ٹھیک کرنے کی بجائے ایک نیا ادارہ قائم کر دو اور وہ بھی مادر پدر آزادی کے ساتھ ۔ جس کو مرضی اٹھا لو جس وقت تک چاہے حبس بے جا میں رکھو اور پھر ملک کے طول و عرض میں یہ کوشش بھی کرے کہ اس نے جو کیا اس کو درست مانا جائے۔

میری رائے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ تو ایک خاص کیس کے تناظر میں تھا لیکن اس کا اطلاق بادی النظر میں نیب کے اب تک کے طرز عمل پر ہوتا ہے۔
اپوزیشن کو ہی دیکھ لیں نیب کے خلاف بولتے ہیں اور اسے کس کس حد تک کی باتیں نہیں کہتے مگر بلاول بھٹو نے بھی یہ نہیں کہا کہ اس ادارے کو ختم کر دیا جائے انہوں نے نیب قوانین میں ترمیم اور تبدیلی کا کہا۔

مجھے گمان ہے کہ اپوزیشن اس تاک میں ہے کہ جب ان میں سے کوئی اقتدار پر آئے گی تو پھر وہ پاکستان تحریک انصاف کواسی نیب کے ذریعے ناکوں چنے چبوائیں گے اور ان کو بھی اسی سیاسی انتقام کا نشانہ بنائیں گے جس کا اس وقت وہ خود بن رہے ہیں۔ ورنہ اس وقت نیب کے خاتمے کا مطالبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔
دوسری جانب نیب کا دعویٰ ہے کہ وہ بہت محنت سے ملک کی خدمت کر رہے ہیں اور ملکی خزانے کو بھر رہے ہیں۔

نیب تقریباً 144 ارب روپے کی ریکوری کا اس سال دعویٰ کر رہی ہے۔ جس میں سے 25 ارب بزنس مین ملک ریاض صاحب کے ہیں جو کہ سپریم کورٹ کے ساتھ ہونے والی ڈیل کے نتیجے میں ہیں اور باقی ہیں دوسرے بزنس مین اور افسران وغیرہ ۔نیب کی ریکوری کا طریقہ کاریہ ہے کہ کسی پر الزام لگا کر اٹھا لیا اور اگر اس بے چارے کا کوئی پرسان حال نہ ہوا تو پلی بارگین کی آپشن لے لیتا ہے۔

پلی بارگین ہوئی 2 ارب اور وہ بھی 20 اقساط میں جو کہ ایک قسط دس کروڑ کی بنتی ہے۔ پلی بارگین کے بعد جب یہ شخص نیب کی حراست سے نکلتا ہے تو سیدھا عدالت پہنچ جاتا ہے اور اس پلی بارگین پر stay order لے لیتا ہے۔ لیں جی ریکوری ہو گئی۔ اس لیے جس مقصد کے لیے نیب بنائی گئی تھی وہ مقصد کتناپورا ہوا اگر نیب اس کی تفصیل بتا دے تو سارا دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہو جائے ، معلوم پڑے گا کہ جناب جس مقصد کے لیے نیب بنائی گئی اس نے اس کا عشر ِ عشیر بھی نہ کیا۔


میری سادہ سی عقل میں تو ایک ہی بات آتی ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ نیب کام کرے تو اس پر چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہئے۔ اگر نیب ایک مخصوص عرصہ میں الزام ثابت نہ کر سکے تو جتنے پیسوں کی کرپشن کا الزام نیب نے لگایا ہے اس سے ڈبل وہ اس شخص کو واپس کرے گااور جو ٹیم اس الزام کی تحقیقات کر رہی ہو گی وہ نوکری سے فارغ ہو گی۔ اب میرے کچھ دوست کہیں گے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔

یہ کیا بات ہوئی۔ یہ تو ریاست کو سزا دینا ہے۔ تو جناب جس شخص کی زندگی نیب الزام لگا کراجیرن بنا دیتا ہے کیا اس شخص کی جانب ریاست کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ اگر سزا اور جزا کا اصول لوگوں کے لیے ہے تو ریاست کے ادارے ریاست سے بڑے کیسے ہو گئے یہ ادارے لوگوں کے لیے ہیں لوگ اداروں کے لیے نہیں ہیں۔ ان اداروں کو بھی جواب دینا چاہیے۔ تاکہ ایک عام شخص بھی اپنی ریاست پہ فخر کر سکے۔


اپوزیشن جماعتوں میں جہاں پیپلز پارٹی نیب قوانین میں ترمیم چاہتی ہے وہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اس نیب کو برقرار رکھنا جاہتی ہے بلکہ یوں کہیں کہ اپنے طریقے کے مطابق کرنا چاہتی ہے کیونکہ سینٹ کی ویب سائٹ پہ آج بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر تاج حیدر صاحب کا بل موجود ہے جس میں انھوں نے یہ شق ڈالی تھی کہ کوئی بھی صوبائی پراجیکٹ نیب کی حدود میں نہیں آنا چاہیے۔

لیکن بھلا ہو ن لیگ کا اس بل کی مخالفت کی اورآج خود اس میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ اگر اس وقت یہ اس بل میں ساتھ دے دیتے تو آج نہ شہباز شریف صاف پانی کمپنی اور آشیانہ میں پھنسے ہوتے نہ ہی خواجہ سعد رفیق پیراگون وغیرہ میں پھنسے ہوتے۔ لیکن خیر اب اس سے بڑا ظلم ہونے جا رہا ہے نیب پر ۔پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے فاروق ایچ نائیک کا بل سینٹ میں متفقہ طور پر قبول کر چکے ہیں مگر اب (ن) لیگ پھر سے مکر گئی ہے۔

یاد رہے یہ بل ستمبر 2019 میں کمیٹی میں پیش ہوتا ہے۔ مگر آپ کو ماضی میں لے کر چلنا چاہتا ہوں سات دسمبر 2018 کو نواز شریف صاحب نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے ”نیب ایسے ہی رہنا چاہیے ہم بھگت چکے باقی بھی بھگتیں“۔ پھر اسی بات کو رانا ثناء اللہ نے 27 اپریل 2019 کو محمد مالک کے ٹی وی پروگرام میں بتایا کہ نواز شریف صاحب سے کوٹ لکھپت جیل میں ملاقات کے دوران نواز شریف صاحب نے اپنی اوپر بتائی گئی بات کو دہرایا، مگر فرق یہ تھا کہ اس بار انھوں نے یہ بات پنجابی میں کہی۔

مگر میری اطلاعات کے مطابق اس مرتبہ ن لیگ جو فاروق ایچ نائیک والے بل سے مکر گئی ہے اور اپنے نکات لے آئی ہے اور یہ نکات برطانیہ سے کہے گئے ہیں، جن میں سے چند عرض کر دیتا ہوں،جیسے
1۔ پبلک آفس ہولڈر کا تعین اور واضح تعریف کی جائے۔
2۔ اثاثہ جات منجمد کرنے کا اختیار احتساب کمیشن کے پاس ہو۔
3۔ احتساب کمیشن 3 افراد پر مشتمل ہو جو اس بات کا تعین کریں کہ ریفرنس بننا چاہیے یا نہیں۔

چیئرمین کے پاس یہ اختیارنہیں ہونا چاہیے۔
4۔ ریمانڈ 14 دن کا ہونا چاہیے۔
5۔ Presumption ( یعنی اگر جج یہ خیال کرے کہ اگر ایسا ہوتا تو یہ ہوتا تو اس بات کو سوچ کر سزا دے دی جائے) کے تحت جو حق سزا دینے کا ہے وہ ختم کیا جائے۔
6۔ گرفتاری کا اختیار صرف عدلیہ کے پاس ہو۔
7۔مالی حد مقرر کی جائے جس پہ پہنچنے پر کیس نیب کے پاس جائے اگر وہ کراس نہ ہو تو نیب مداخلت نہیں کر سکتا۔


8۔ نیب کے کسی بھی کیس کے حوالے سے انفارمیشن لیک نہ ہوکیونکہ اس طرح سیاسی انتقام کا نشانہ نبنایا جاتا ہے
ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے یہ بیل سرے چڑھتے مشکل ہی نظر آتی ہے۔ اور پاکستان تحریک انصاف تو اس سب کو چھیڑنا کبھی بھی نہیں چاہے گی سوائے چند ایک کیسز کے حوالے سے۔ کیونکہ وہ تو اپنے سوا باقی سب کو گناہگار خیال کرتے ہیں۔ اور آج بھی ان کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے اپوزیشن کو زنداں میں ہونا چاہیے۔

بے شک اس کے لیے جھوٹے کیس ہی کیوں نہ بنانے پڑیں۔ اور اس کا سب سے آسان فورم نیب ہے جس میں ایک درخواست دو اور پھر سو جاوٴ۔ popular Sentiment کی سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہوتا ہے۔ اورآج دو سالہ حکومت کے بعد بھی تحریک انصاف کے لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ کرپشن فری پاکستان ضرورت ہے اور اس نعرے کے زندہ رہنے کے لیے نیب کا زندہ رہنا ضروری ہے۔ اس لیے اب نیب نیازی گٹھ جوڑ جسے خان صاحب خود ختم کر دیں تو اچھا ہے ورنہ پانچ سال بعد بھی یہیں پہ کھڑے ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :