
مہنگائی ، قوت خرید اور قوت برداشت
جمعہ 1 اکتوبر 2021

مظہر اقبال کھوکھر
(جاری ہے)
ابھی پچھلے دنوں وزیر خزانہ کے زیر صدارت پرائس کنٹرول کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری کئے گئے اعلامیے کہا گیا کہ حکومت 4 کروڑ لوگوں کو اشیائے خورد و نوش میں براہ راست سبسڈی دینے کے لیے ایک پروگرام شروع کر رہی ہے جس کے تحت گھی کی قیمت میں 50 روپے فی کلو کمی کی جائے گی چینی کی قیمت 90 روپے فی کلو جبکہ آٹا 55 روپے کلو فراہم کیا جائے گا تاہم یہ سبسڈی یوٹیلٹی سٹورز کے زریعے دی جائے گی۔ وزیر خزانہ کا یہ بیان پڑھ کر ایک لمحے کو خوشی تو ضرور ہوئی مگر دوسرے ہی لمحے مایوسی چھا گئی کیونکہ موجودہ حکومت کے اعلانات ، بیانات اور دعوؤں کے حوالے سے ریکارڈ دیکھتے ہوئے کوئی بھی شخص حکومتی شخصیات پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں حالانکہ یہی عوام ہی تو تھی جس نے بھوک ، غربت ، بے روزگاری کے خاتمے ، عدل و انصاف کی بالادستی ، اداروں کے استحکام ، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ، بلدیاتی انتخابات ، پسماندہ علاقوں کے احساس محرومی کے خاتمے ، کرپشن کے خاتمے ، بے رحمانہ اور بلا امتیاز احتساب ، لوٹی ہوئی دولت کی واپسی ، آئی ایم ایف سے نجات، سستی بجلی کی فراہمی ، قیمتوں میں استحکام ، مہنگائی کے خاتمے ، پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسز میں کمی ، عام آدمی کی بحالی ، معیشت کی مضبوطی ، پچاس لاکھ گھر ، ایک کروڑ نوکریوں اور جنوبی پنجاب صوبہ سے متعلق پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں کامیاب کرایا۔ مگر آج تین سال گزرنے کے باوجود وزیر اعظم کی کوئی تقریر سن لیں یا کسی حکومتی وزیر مشیر بیان اٹھا کر دیکھ لیں وہ اپنی کارکرگی تو نہیں بتاتے مگر یہ ضرور بتاتے رہتے ہیں کہ سابقہ حکمران چور تھے ، قومی خزانے کی لوٹ مار کی گئی ، ملک میں مافیا مضبوط ہے ہمارا مقابلہ مافیا کے ساتھ ہے کاش کہ آج تین سال بعد وہ عوام کو بتا رہے ہوتے کہ چینی سیکنڈل میں ملوث اتنے چوروں کو سزا ہوچکی ہے آٹے بحران کے ذمہ دار اتنے لوگ جیل میں ہیں کرپشن میں ملوث اتنے لوگ کال کوٹھری میں ہیں اور اتنی لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جا چکی ہے مگر ایسا نہیں ہے افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کرپشن کے کیسز کے اکثر ملزم یا تو ضمانتوں پر ہیں یا پھر کمزور کیسز کی وجہ سے با عزت بری ہوچکے ہیں جبکہ آٹا چینی سیکنڈل میں ملوث لوگوں کی انکوائریاں ہی ٹھپ ہوچکی ہیں.
جہاں تک قوت خرید کا تعلق ہے حکمرانوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اعداد و شمار کی بنیاد پر نہ تو ترقی کا گراف دیکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی غربت کو جانچا جا سکتا ہے کیونکہ
اصل حقیقت اعداد و شمار سے نہیں بلکہ حالت زار سے دیکھی جاسکتی ہے مگر اس کے لیے سب اچھا کی عینک اتار کر دیکھنا پڑتا ہے گو کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کیا مگر پرائیویٹ ملازمین اور عام محنت کش لوگوں کی آمدنی میں کتنا اضافہ ہوا اور پھر جس تناسب سے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے اس سے سفید پوش لوگوں کی قوت خرید کیسے بڑھ سکتی ہے۔ کیونکہ مہنگائی ہونا تو قابل برداشت ہے مگر مہنگائی ہوتے رہنا ناقابل برداشت اور انتہائی تکلیف دہ ہے اور آج بالکل ایسی ہی صورتحال ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کچھ بھی حکومت کے کنٹرول میں نہیں یا پھر حکومت کسی اور کے کنٹرول میں ہے ایسے میں قوت خرید بڑھنا تو دور کی بات ہے قوت برداشت دم توڑ رہی ہے مگر اقتدار میں سب اچھا کی رپورٹیں سننے والوں کو عوام کی دم توڑتی قوت برداشت کا احساس نہیں اور اگر اگلے دو سالوں میں بھی حکمرانوں کی یہ بے حسی برقرار رہی اور وہ عوام کی قوت برداشت کا امتحان لیتے رہے تو پھر اس کا نتیجہ اس وقت نکلے گا جب عوام کے ہاتھ میں ووٹ کی پرچی ہوگی اور ووٹ کی پرچی میں حکمرانوں کا مستقبل ہوگا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مظہر اقبال کھوکھر کے کالمز
-
ڈی سی لیہ اور تبدیلی
جمعرات 3 فروری 2022
-
صوبے کے نام پر سیاست
بدھ 26 جنوری 2022
-
بات تو سچ ہے۔۔۔
جمعرات 20 جنوری 2022
-
اجتماعی بے حسی کا نوحہ
بدھ 12 جنوری 2022
-
خاموش انقلاب نہیں دھاڑتا طوفان
بدھ 5 جنوری 2022
-
ایک اور سال
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
تبدیلی آنے سے پہلے جانے لگی
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
ایک اور بحران۔۔۔۔
منگل 14 دسمبر 2021
مظہر اقبال کھوکھر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.