ن لیگ متنازعہ

منگل 3 نومبر 2020

Mian Habib

میاں حبیب

کچھ عرصہ سے پاکستانی سیاست انوکھے موڑ پر کھڑی دکھائی دے رہی ہے کبھی مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی کو سیکیورٹی رسک قرار دیا کرتی تھی پھر بلاول بھٹو زرداری مسلم لیگ ن کے قائدین کو مودی کے یار پکارا کرتے تھے لیکن آج کل عجیب تماشہ لگا ہوا ہے نہ پتہ چلتا کون کس کے ساتھ کہاں کھڑا ہے کون کہاں سے بول رہا کس کے بیانیہ کے پیچھے کون ہے کون کس کے ذریعے کس کو ٹارگٹ کر رہا ہے جب چور بھی شور مچانا شروع کر دے چور چور اور چور کی آواز بھی سعد سے بلند ہو تو پھر عام آدمی کو جانچنا مشکل ہو جاتا ہے کہ چور کون ہے اور سعد کون ہے اسی قسم کا حال پاکستان میں ہو گیا ہے ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا ہے اس میں ریاست کی بولی دبی ہوئی نظر آتی ہے جبکہ آگ لگانے والی تیلیاں جابجا دکھائی دے رہی ہیں ان تمام بولیوں کے مقابلے میں ردعمل کا انتظار کیا جا رہا ہے نہ جانے کیوں ایسے متنازعہ معاملات کو منظر عام پر لایا جا رہا ہے جس سے پاکستان کے پریمیم ادارے اور ریاست کی سبکی ہو اور ان تمام تر معاملات کا فائدہ ہمارا ازلی دشمن بھارت اٹھا رہا ہے بھارت اپنے اندرونی خلفشار کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہو رہا تھا اور شدید دباو میں تھا لیکن ہماری حماقتوں کے باعث بھارت کو ریلیف مل رہا ہے بھارتی عوام اندرونی تنازعات کے باعث بری طرح تقسیم ہو رہے تھے ہمسایہ ممالک اس کی دسترس سے نکلتے جا رہے تھے معیشت زوال کی طرف جا رہی تھی لیکن اب ہمارے سیاستدانوں کی آپس کی لڑائی نے مودی کو ریلیف دینا شروع کر دیا ہے پاکستان نے جب سے بھارتی طیارے مار گرائے تھے اور ان کا پائیلٹ ابھی نندن گرفتار کیا تھا اس کے بعد بھارتی افواج بھارتی حکومت اور عوام ڈی مورلائز تھے ہمارے سابق سپیکر قومی اسمبلی نے ایسی بونگی ماری ہے کہ اب بھارت اپنے عوام کو کہہ رہا ہے کہ ہمارے حملہ کے خوف سے پاکستان کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور انھوں نے اسی خوف کی وجہ سے ابھی نندن کو واپس کیا تھا اور اس کی گواہی پاکستان کے اندر سے مل رہی ہے میاں نوازشریف کے بیانات کے بعد بھی وضاحتیں، انس نورانی، اچکزئی، اور دیگر لیڈروں کے بیانات کے بعد وضاحتیں گھونگلھوں سے مٹی جھاڑنے والی بات ہے اصل بات سمجھنے والی ہے کہ یہ سارے ایک ہی وقت میں ایک جیسا راگ کیوں آلاپ رہے ہیں خاص کر ایاز صادق نے تو حد ہی کردی ہے اچھا بھلا اس کا امیج بنا ہوا تھا لیکن ایک بیان نے ان کو اس قدر متنازعہ کر دیا ہے کہ وہ میر جعفر اور میر صادق کی صف میں شامل کر دیے گئے ہیں اب عام لوگ بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ کہ مسلم لیگ ن کسی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے جب ایسا ماحول بن جائے تو پھر عدلیہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس کا از خود نوٹس لے پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانےوالی بیان بازی پر پابندی لگائی جائے عدلیہ اس پر جوڈیشل انکوائری کروائے کہ اچانک خاص قسم کا ماحول کیوں بنایا جا رہا ہے اس سارے ماحول کا نقصان جہاں قومی سلامتی کو ہو رہا ہے وہیں مسلم لیگ ن بھی انتشار کا شکار ہو رہی ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کا ووٹر دائیں بازو کا ووٹر ہے جو ایسے بیانیہ کے خلاف ہمیشہ سے کھڑا ہوتا رہا ہے مسلم ن اپنے آپکو متنازعہ کر رہی ہے چونکہ ہمارے ہاں جی حضوری کا کلچر عام ہے اس لیے یہاں لیڈروں کی اچھے برے ہر معاملہ پر یس سر یس سر کہا جاتا ہے بدقسمتی سے مسلم لیگ ن کا ایک طبقہ اپنے لیڈر کو خوش کرنے کے لیے متنازعہ بیانیہ پر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کے چکروں میں اپنے پاوں پر کلہاڑی مار رہا ہے مسلم لیگ ن متنازعہ ہوتی جا رہی ہے جب سیاسی جماعتیں انتشار کا شکار ہوتی ہیں تو پھر وہاں گروپ بندی کا ظہور ہوتا ہے آگے چل کر میاں شہبازشریف، چوہدری نثار علی خان، رانا تنویر خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق،اور احسن اقبال میں سے کوئی بھی نظریاتی بن کر سامنے آسکتا ہے یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یہ تمام لوگ اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں دوسری جانب پیپلزپارٹی واضح طور پر ن لیگ کو آگے کرکے خود پیچھے ہٹتی ہوئی نظر آرہی ہے ابھی صرف ایاز صادق کے بیان کی پیپلزپارٹی مذمت کر رہی ہے وہ وقت دور نہیں جب پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن کو مودی کا یار ڈیکلیر کرکے ملک دشمن جماعت قرار دے گی اسی طرح مولانا فضل الرحمن تو ہر وقت پینتھرا بدلنے کی مہارت رکھتے ہیں باقی چھوٹے موٹے تو ہوا کا رخ دیکھ کر چلنے والے ہیں ان میں سے کچھ تو شٹ اپ کال کے انتظار میں ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :