اخلاقی جواز

جمعہ 4 دسمبر 2020

Mian Habib

میاں حبیب

پاکستانی سیاست بھی سٹاک مارکیٹ کی طرح ہے جس طرح سٹاک مارکیٹ میں ہر لمحہ شیرز کی قیمتوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اسی طرح سیاسی جماعتوں اور قائدین کی پرفارمنس سے سیاسی جماعتوں کی ریٹنگ میں بھی اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے خاص کر الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر بیانات تبصرے بھی سیاسی ریٹنگ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن بعض چیزیں سیاسی جماعتوں کے کھاتے میں ایسی پڑتی ہیں کہ وہ ساری عمر جان نہیں چھوڑتیں مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو کے کھاتے میں یہ بیان کہ " ادھر ہم اودھر تم " تاریخ کا حصہ بن گیا ہے اسی طرح تھوڑی سی پیتا ہوں نے بھٹو کی سیاست کا بیڑا غرق کر دیا تھا تازہ ترین واقعات میں مسلم لیگ ن کے سابق وزیر خزانہ اور میاں نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار کا بی بی سی کو انٹرویو مسلم لیگ ن کا بیڑہ غرق کر گیا ہے ایک طرف تحریک انصاف تسلسل کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی اور ماضی میں اقتدار میں رہنے والی دیگر جماعتوں نے ملک کا سرمایہ لوٹا ہے اپوزیشن اس پر بڑی مشکل سے یہ کنفویزن پیدا کرنے میں تھوڑی سی کامیاب ہوئی تھی کہ نیب ان کے خلاف انتقامی کارروائی کر رہا ہے اور حکومتی ادارے یہ ثابت کرنے میں ناکام ہیں کہ ہم نے کوئی لوٹ مار کی ہے لیکن اسحاق ڈار کے انٹرویو نے پوری اپوزیشن کی محنت پر پانی پھیر دیا ہے ان کا اپنے اثاثوں کا تسلی بخش جواب نہ دینا ایک قسم کا ان کا اقرار جرم تھا کہ ان کے پاس اپنے اثاثوں اور اولاد کے اثاثوں کی کوئی منی ٹریل ہے اسی طرح میاں نوازشریف کے بچوں کے بیانات نے ثابت کیا کہ ان کے پاس بھی اپنے اثاثوں بارے کوئی جواب نہیں لہذا اسحاق ڈارکے انٹرویو نے یہ ایشو پھر تازہ کر دیا ہے اب حکومت اس پر سیاست کو فوکس کرے گی اخلاقی طور پر اسحاق ڈار نے مسلم لیگ ن کے بیانیے کو ڈبو دیا ہے دوسرا اہم واقعہ میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف کی والدہ کی وفات ہے اس پر میں لکھنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ مرحومہ بڑی وضع دار مشرقی خاتون تھیں میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ بڑی شفیق اور حلیم تھیں ان کی زبان سے ہمیشہ دعائیں نکلتی تھیں انھوں نے مرتے دم تک اپنے بچوں کو اکھٹا کیے رکھا یقینی طور پر یہ شریف فیملی کے لیے بڑا صدمہ تھا ہم ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں اللہ تعالی مرحومہ کے درجات بلند کرے اورشریف فیملی کو صبر جمیل عطا فرمائے  لیکن شمیم بیگم کے انتقال سے شریف فیملی کی سیاست پر بھی بڑا گہرا اثر پڑے گا چونکہ شریف فیملی کے اندر نظریاتی اختلاف تو پہلے سے موجود تھے لیکن خاندانی روایات ان پر غالب تھیں شمیم بیگم کی رحلت کے بعد اب کوئی فرد ایسا نہیں جو سب کو جوڑ کر رکھ سکے کیونکہ باقی سب افراد اب فریقین ہیں جن کے اپنے اپنے نظریے اور مفادات ہیں اس پر تجزیہ ایک طرف رکھ کر مرحومہ کی تدفین کے حوالے سے جو کچھ ہواہماری مشرقی اقدار میں اس پر کافی بحث ہو رہی ہے اور بہت سارے لوگوں کا کہنا ہے کہ میاں شریف فیملی کے کسی فرد کو میت لے کر پاکستان آنا چاہیے تھا کسی فیملی ممبر کا میت کے ساتھ نہ آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے نزدیک سیاسی وذاتی  مفادات زیادہ عزیز ہیں روایات زیادہ عزیز نہیں ان کے مخالفین اس کو تادیر ریفرنس کے طور پر استعمال کرتے رہیں گے تیسرا اہم واقعہ اپوزیشن کا ملتان کا جلسہ تھا جس کا اخلاقی جواز بہت کمزور تھا مریم نواز کو اخلاقی طور پر اس جلسہ میں شرکت نہیں کرنی چاہیے تھی انھیں دادی کے انتقال کی وجہ سے ملتوی کر دینا چاہئے تھا ایک طرف تعزیت کے لیے میاں شہبازشریف اور حمزہ شہباز جیل سے پیرول پر رہا ہو کر گھر میں تعزیت کرنے والوں سے مل رہے ہیں تو دوسری جانب مریم نواز جلسے میں شرکت کے لیے گاڑی کی چھت پر سوار ہیں لوگوں کو یہ اچھا نہیں لگا اسی طرح بلاول کا کرونا کی وجہ سے خود جلسے میں شرکت نہ کرنا اور ورکروں کو حفاظتی انتظامات کے بغیر شرکت کی تلقین کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا اسی طرح اب پی ڈی ایم کے جلسوں کی سیریل کے آخری لاہوری جلسہ کئی سوالات اٹھا رہا ہے خصوصی طور پر جماعت اسلامی کے جلسوں کی منسوخی کے بعد پی ڈی ایم کو کرونا کی صورتحال کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے ورنہ اس کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاتارہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :