سینٹ برائے فروخت

جمعرات 11 فروری 2021

Mian Habib

میاں حبیب

انتخابات کی تاریخ کرپشن سے لبریز ہے گلی محلے کے الیکشن سے لے کر تنظیموں کے انتخابات،وکلاء صحافیوں ویلفیر تنظیموں اور عام انتخابات تک ہر الیکشن میں پیسے کا عمل دخل نمایاں ہے عام انتخابات کا طریقہ کار تھوڑا مختلف ہے جس کی وجہ سے کچھ نہ کچھ حصہ لوگوں تک پہنچ جاتا ہے پاکستان میں انتخابات بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے بہت بڑا کاروبار ہے سیاسی جماعتیں پارٹی فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے فی کس وصول کرتی ہیں کئی نووارد نو دولتیے یا بیرون ملک سے آنے والے سرمایہ کار مہنگے داموں پاپولر جماعتوں سے ٹکٹ خرید لیتے ہیں سینٹ کے انتخابات کا طریقہ تھوڑا مختلف ہے جس میں سیاسی جماعتوں کو اپنے ارکان اسمبلی کی تعداد کے حوالے سے علم ہوتا ہے کہ وہ کتنے سینٹر منتخب کروا سکتے ہیں اس لیے سرمایہ دار سینٹ کے ذریعے پارلیمنٹ میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں جب سیاسی جماعتیں اپنے نظریاتی ورکرز کو نذر انداز کر کے سیٹیں بیچ دیتی ہیں تو پھر انڈر ہینڈ ارکان اسمبلی بھی ڈیل کرکے اپنا ووٹ بیچ دیتے ہیں اب تو فاٹا ختم ہو گیا ہے ورنہ سب سے بڑی منڈی فاٹا میں لگتی تھی اور سب سے بڑا خریدار سینٹر گلزار مرحوم تھے جو خود بھی اور ان کے بیٹے بھی سدا بہار سینٹر تھے اس کے علاوہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں بھی ووٹوں کی خریداری عام تھی پنجاب اور سندھ میں بھی ایک آدھ سیٹ پر داو لگ جاتا تھا سیاسی جماعتوں نے کھبی ان وارداتوں کی روک تھام کیلئے آئینی طریقہ کار میں تبدیلی کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کی ہر دفعہ صرف وہی سیاسی جماعت شور مچاتی ہے جس کے ووٹر اسے دھوکہ دے جاتے ہیں سینٹ کے طریقہ انتخاب اور الیکٹورل کالج پارلیمنٹ اس لیے رکھا گیا تھا تاکہ تجربہ کار اور ٹیکنو کریٹس کو پارلیمنٹ میں شامل کیا جاسکے لیکن سیاسی جماعتوں اور سرمایہ کار امیدواروں نے اس کو کاروبار بنا لیا اب حقیقت یہ ہے کہ سینٹ کی ٹکٹیں سیاسی جماعتیں فروخت کریں یا ارکان اسمبلی اپنا ضمیر فروخت کریں سینٹ برائے فروخت ہے اگر ایسا ہی ہونا ہے اور سیاسی جماعتیں اس کی روک تھام کے لیے کچھ کرنے کے لیے بھی تیار نہیں تو پھر حکومت کو ایک مہربانی کرنی چاہیے وہ ایک آرڈیننس کے ذریعے سینٹ کی نشستیں نیلام عام کے ذریعے بولی لگوائے جو سب سے زیادہ بولی دے اسے سینٹر ڈیکلیر کر دیا جائے اس طرح ہر 3سال بعد حکومت کو ایک اچھی خاصی رقم اکھٹی ہو جایا کرے گی  اس نیلامی اور ہر صوبے سے نمائیندگی کے لیے طریقہ کار بھی وضع کیے جاسکتے ہیں اور جس فیلڈ کے سپیشلسٹ درکار ہوں ان کے لیے نشستیں مخصوص کر کے ان میں کمپیٹیشن کروا دیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :