تیرا کیا بنے گا

پیر 5 اپریل 2021

Mian Habib

میاں حبیب

پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کے بعد ساری اپوزیشن اب نئی بساط بچھا کر اپنے نئے کرداروں کے ساتھ میدان میں اترنے کے لیے سوچ وچار کر رہی ہے سب سے زیادہ تذبذب مسلم لیگ ن کے اندر پایا جاتا ہے پیپلزپارٹی کی پوری کوشش ہے کہ وہ کوئی نیا لارا لگا کر ن لیگ سمیت ساری اپوزیشن کو دوبارہ استعمال کر لے عوامی نیشنل پارٹی تو پوری طرح ان کے ساتھ ہے پیپلزپارٹی نے انتہائی معصومانہ انداز میں ن لیگ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ چونکہ پنجاب کا محاذ کافی کمزور ہے وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کا تحریک انصاف میں کوئی مضبوط دھڑا نہیں اس لیے اگر وقتی طور پر مرکز کو بھول کر پنجاب کو ٹارگٹ کیا جائے تو کامیابی مل سکتی ہے ن لیگ کو یہ بھی سنہرے خواب دیکھائے گئے کہ جس طرح چوہدریوں نے پنجاب میں سینٹ کے الیکشن میں بلامقابلہ امیدوار کامیاب کروا کر اپنی کمٹمنٹ پوری کی ہے اسی طرح آئیندہ کے معاملات پر بھی ان سے بات کی جاسکتی ہے لیکن اس میں مرکزی کردار چونکہ ن لیگ کا ہے لہذا آگے انھیں لگنا ہو گا بظاہر یہ داو اپنے اندر پوری دلچسپی رکھتا تھا لیکن ن لیگ نے پاوں نہ لگایا اور پیپلز پارٹی کے کسی نئے چکمے میں آنے کی بجائے یہ کہہ کر کہ میاں نواز شریف اس کی حمایت نہیں کرتے پیپلزپارٹی کی آفر کو ٹھکرا دیا کہ ہم مزید اپنا مذاق نہیں بنوانا چاہتے بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پی ڈی ایم اب دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے سینٹ میں دو اپوزیشنیں وجود میں آچکی ہیں قومی اسمبلی میں بھی یہی سین ہو گا وہاں پیپلزپارٹی شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر تسلیم نہیں کرے گی اور سینٹ میں ن لیگ اور ان کی ساتھی جماعتیں یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر نہیں مانیں گی حکومت اس سارے ماحول کو انجوائے کرے حکومت کو وخت ڈالتے ڈالتے اپوزیشن کو اپنی پڑ گئی ہے اپوزیشن کی تقسیم سے نہ صرف تحریک انصاف کی مرکزی حکومت محفوظ ہو گئی ہے بلکہ پنجاب کے وزیر اعلی عثمان بزدار پر تبدیلی کی لٹکتی تلوار بھی چھٹ گئی ہے متحدہ اپوزیشن کی سوچ تھی کہ ہم پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریک لانے کی کوشش کریں گے تو عمران خان از خود عثمان بزدار کو تبدیل کر دیں گے لیکن حالات نے عثمان بزدار کو مزید مضبوط کر دیا ہے مسلم لیگ ن پنجاب میں تبدیلی لانے سے صاف انکار کر چکی ہے لہذا عدم اعتماد والا ورق تو پھٹ گیا ہے اب وزیر اعظم عمران خان جب تک چاہیں گے عثمان بزدار پنجاب کے وزیر اعلی رہیں گے تاحال عمران خان وزیر اعلی پنجاب پر مکمل اعتماد کرتے ہیں اس طرح مرکز اور پنجاب میں تبدیلی کی باتیں خود ہی دم توڑ گئی ہیں لیکن یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ کوئی اور موومنٹ نہ بننے دے اور اب ساری توجہ ڈیلیورنس پر مرکوز کرے کل پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہے جس میں پی ڈی ایم کے حوالے سے اور نئی سیاسی صورتحال پر فیصلے کیے جائیں گے دیکھنا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم سے علیحدگی کا از خود اعلان کرتی ہے یا ن لیگ اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ پیپلزپارٹی اور اے این پی کو شوکاز نوٹس دینے کا فیصلہ کرتی ہے  اس وقت سب سے زیادہ کنفویزن ن لیگ کے اندر پائی جا رہی ہے کہ اب کیا کیا جائے ن لیگ کے اندر ایک نئی سوچ بھی ابھر رہی ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ جوہونا تھا ہو چکا پیپلزپارٹی سے مکمل راہیں جدا نہ کی جائیں اور جس طرح پرویز مشرف کے ساتھ پیپلزپارٹی کے معاملات کی اوڑھ میں ن لیگ نے راستہ بنایا تھا آسی طرح اب بھی ن لیگ کو راستہ ڈھونڈنا چاہیے مسلم لیگ ن کو صرف اور صرف حکومت کو ٹارگٹ کرنا چاہیے اور اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں بھی خاموشی اختیار کر لینی چاہیے پیپلزپارٹی کے خلاف بھی ایک حد سے آگے نہ بڑھا جائے کیونکہ اس وقت تمام محاذوں پر چومکھی لڑائی نہیں لڑی جا سکتی اگر ن لیگ نے حکومت، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی محاذ آرائی شروع کر دی تو پیپلزپارٹی تمام تر سیاسی فوائد سمیٹ کر آئیندہ کے اقتدار کی راہ ہموار کر لے گی نئی پیدا شدہ سیاسی صورتحال میں ن لیگ کو از سر نو اپنی حکمت عملی طے کر کے آگے بڑھنا ہوگا مریم نواز کے بیرون ملک جانے کے لیے بھی راہیں ڈھونڈی جا رہی ہیں ان تمام تر معاملات کے باعث مسلم لیگی ورکر پریشان ہے کہ ان کا کیا بنے گا کہیں قیادت کے نئے فیصلے بھاری نہ پڑ جائیں  آنے والے دنوں میں پیپلزپارٹی کا ایکٹ بھی واضع کر دے گا کہ وہ حکومت کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے یا اپوزیشن کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتی ہے سپریم کورٹ نے ڈسکہ میں دوبارہ الیکشن کروانے کا حکم دے دیا ہے اور سیاسی جماعتوں کو وقت بھی نہیں دیا کہ وہ جوڑ توڑ کے ساتھ کوئی نئی بساط بچھا سکیں پچھلی بار فروری میں پیپلزپارٹی نے ڈسکہ میں پوری طرح ن لیگ کو سپورٹ کیا تھا اب 10 اپریل کو پیپلزپارٹی کا رویہ کیا ہوگا کیا پیپلزپارٹی کا ووٹر دوبارہ ن لیگ کو سپورٹ کرے گا یا خاموش رہے گا یا اس بار تحریک انصاف کی حمایت کرے گا پیپلزپارٹی کا ڈسکہ کے الیکشن میں فیصلہ بھی آنے والے دنوں کی سیاست کا اشارہ دے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :