کنٹونمنٹ الیکشن اور سیاسی جماعتوں کی مقبولیت

منگل 14 ستمبر 2021

Mian Habib

میاں حبیب

انتخابات سیاسی جماعتوں کی عوامی مقبولیت کا پیمانہ ہوتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں الیکشن لڑنا ایک سائنس ہے یہاں بہت ساری چیزیں مینج کرنا پڑتی ہیں یہاں سیاسی مقبولیت بھی سیاسی جگاڑ ہیں جس جماعت کے پاس جتنے تگڑے الیکٹ ایبلز ہیں جس جماعت کے پاس جتنے بڑے سرمایہ کار ہیں چوہدری اور بااثر لوگ اس کے ساتھ ہیں اتنی ہی وہ عوام میں مقبول جماعت ہو گی حقیقت میں یہ عوامی مقبولیت کا معیار نہیں بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں کی جڑیں عوام میں نہیں ہوا میں ہے جس طرف کو جکھڑ چل جائے تمام اجزائے ترکیبی اس طرف کا رخ کر لیتے ہیں حالیہ کنٹونمنٹ بورڈز الیکشن سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف ابھی تک کچی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے پاس ابھی بھی کاریگر موجود ہیں تحریک انصاف اقتدار میں آنے کے بعد حکومت پر زیادہ توجہ دے رہی ہے جبکہ پارٹی نظر انداز ہو رہی ہے حالانکہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں ہمیشہ اقتدار میں آکر مضبوط ہوتی ہیں لیکن تحریک انصاف کی توجہ کسی اور طرف ہے اب تک کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق مجموعی طور پر اگر جائزہ لیا جائے تو ملکی سطح پر تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے ملک بھر کے 41 کنٹونمنٹ بورڈز کی 212 وارڈز میں سے تحریک انصاف 63 وارڈز جیت کر سرفہرست ہے مسلم لیگ ن 59 وارڈز جیت کر دوسرے نمبر پر اور آذاد امیدوار 52 وارڈز جیت کر تیسرے نمبر پر ہیں آذاد جیتنے والے امیدواروں میں سے زیادہ تر کا تعلق تحریک انصاف سے ہے جیسے کہ ملتان میں تحریک انصاف نے تمام امیدواروں کو کھلا چھوڑ دیا تھا کہ اپنی قسمت آزما لو اس طرح وہاں 9آذاد امیدوار جیت گئے جبکہ ایک نشست ن لیگ کے حصے میں آئی اب وہ 9کے9 جیتنے والے تحریک انصاف کے ہیں اسی طرح آذاد جیتنے والے حکومتی جماعت میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ بورڈز میں زیادہ وائس پریذیڈنٹ کس جماعت کے بنتے ہیں لاہور کے تو دونوں کنٹونمنٹس میں مسلم لیگ ن کے وائس پریذیڈنٹ بنیں گے پیپلزپارٹی جو کہ آئیندہ کے اقتدار کا خواب دیکھ رہی ہے سندھ سے 14 اور خیبر پختون خواہ سے صرف تین نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے پنجاب اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی ایک بھی وارڈ نہیں جیت پائی لاہور میں پیپلزپارٹی کے صرف ایک امیدوار نے مقابلہ کیا ہے باقی تو امیدوار برائے نام تھے بلکہ ان کے پاس پورے امیدوار بھی نہیں تھے ملکی سطح پر پیپلزپارٹی پارٹی 17،ایم کیو ایم 10،جماعت اسلامی 7،بلوچستان عوامی پارٹی 2اور عوامی نیشنل پارٹی 2 وارڈز جیتنے میں کامیاب ہوئی اگر صوبائی سطح پر جائزہ لیا جائے تو پنجاب میں آج بھی مسلم لیگ سر فہرست ہے جس نے 113 نشستوں میں سے 51 نشستیں حاصل کیں 32 آذاد امیدوار کامیاب ہوئے تحریک انصاف 28 اور جماعت اسلامی 2نشستوں پر کامیابی حاصل کر پائی اگر پنجاب میں آذاد امیدوار تحریک انصاف میں شامل ہو جاتے ہیں تو تو پھر ان کی تعداد 60 ہو جائے گی سندھ کی 53 وارڈز میں سے تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کا جوڑ برابر رہا دونوں جماعتوں نے 14،14 نشستیں حاصل کیں ایم کیو ایم 10،آذاد 7،مسلم لیگ ن 3،جماعت اسلامی نے 5 نشستیں حاصل کیں خیبر پختون خواہ میں پی ٹی آئی 18 نشستوں سے سر فہرست رہی 9آذاد، 5مسلم لیگ ن 3پیپلز پارٹی اور2 عوامی نیشنل پارٹی جیتنے میں کامیاب رہی بلوچستان کی 9نشستوں میں 4آذاد 3تحریک انصاف اور 2بلوچستان عوامی پارٹی نے حاصل کیں کنٹونمنٹس کے انتخابات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اصل مقابلہ سیاسی جماعتوں اور آذاد امیدواروں کے درمیان تھا تمام سیاسی جماعتوں نے 876 امیدوار کھڑے کیے تھے جبکہ آذاد امیدواروں کی تعداد 684 تھی سب سے زیادہ 183امیدوار تحریک انصاف کے تھے ن لیگ کے 149،پیپلزپارٹی کے 113،جماعت اسلامی کے 104،تحریک لبیک 83،ایم کیو ایم 42 پاک سرزمین پارٹی 35،ق لیگ 34 جے یو آئی نے 25 امیدوار میدان میں اتارے تھے پاک سرزمین پارٹی، تحریک لبیک، مسلم لیگ ق،اور جے یو آئی کو پورے ملک میں کوئی نمائندگی نہ مل سکی تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن ان انتخابی نتائج کو اپنے اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پورے ملک میں تحریک انصاف مختلف جگہوں پر مختلف سیاسی قوتوں سے مقابلہ کرتی دکھائی دیتی ہے پنجاب میں تحریک انصاف کا مقابلہ مسلم لیگ ن سے ہے سندھ میں پیپلز پارٹی سے خیبر پختون خواہ میں مسلم لیگ ن، جے یو آئی اور اے این پی سے ہے بلوچستان میں علاقائی جماعتوں سے ہے آئیندہ عام انتخابات میں سیاسی افق پر یہی فارمولا برقرار رہتا نظر آتا ہے تحریک انصاف کی سب سے بڑی حریف مسلم لیگ ن کو گلگت بلتستان اور کشمیر میں شکست کے بعد کنٹونمنٹس کے انتخابات میں پنجاب کے نتائج سے حوصلہ ملا ہے سیاسی حلقے مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم کی جانب سے احتجاجی سیاست کی باتیں کر رہے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ اب ساری سیاسی جماعتیں عام انتخابات کی تیاریوں کی طرف جا رہی ہیں اپوزیشن کی کوشش ہو گی ہر محاذ پر حکومت کو بدنام کر کے کمزور کر کے اپنی سیاسی مقبولیت میں اضافہ کرے اور حکومت کی کوشش ہو گی کہ اپوزیشن کو اکٹھا نہ ہونے دیا جائے اور علیحدہ علیحدہ کر کے مارا جائے اگلے 2سال سیاسی گہما گہمی عروج پر رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :