امن امان کی بگڑتی صورتحال اور دوسال پرانے قوانین-(حصہ اول)

ہفتہ 12 ستمبر 2020

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

گجر پورہ لاہور میں موٹروے کے قریب خاتون کے ساتھ ریپ اور ڈکیتی کے مقدمے کی تفتیش اور مستقبل میں ایسے واقعات کے انسداد کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جس کی سربراہی پنجاب کے وزیر قانون کریں گے جبکہ محکمہ داخلہ پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ پنجاب، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن پنجاب، اور ڈائریکٹر جنرل پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی شامل ہوں گے اسی طرح ایک کمیٹی پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل انعام غنی نے بھی ڈی آئی جی انوسٹی گیشن لاہور شہزادہ سلطان کی سربراہی میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے جس میں پولیس کے مختلف یونٹس کے افسران شامل ہیں۔

یہاں سوال یہ ہے کہ اتنی کمیٹیاں تشکیل دینے کے باوجود مملکت خدادادمیں ایسا ہولناک واقعہ پیش کیوں اور کیسے آیا؟ کمیٹیاں آپ جتنی مرضی تشکیل دے لیں مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا یہ میں اپنے 22/23سالہ صحافتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں ایک ہمارا پولیس کلچر‘تفتیش کے گھسے پٹے طریقے‘کرشن اور ان سب سے بڑھ کر سیاسی اثرورسوخ زیادہ پریشرآئے گا تو مقامی پولیس بندے ”ارینج“کرکے اقبالی بیان داخلہ کروادے گی‘عدالتیں‘ریمانڈ‘ٹرائل ایک طویل اور تھکا دینے والا عمل شروع ہوگا کہ مدعی تھک ہار کر کیس بند کروانے کے لیے منتیں شروع کردے گا یا عدم پیروی کی بنیاد پریہ کیس بھی کروڑوں کیسوں کے ڈھیر میں دب جائے گا۔

(جاری ہے)

پولیس نے اس جانب ”پیش قدمی “شروع کردی ہے اور ایک اطلاع کے مطابق 70کے قریب افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے یہ سانحہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب پیش آیا جب دو افراد نے تھانہ گجرپورہ کی حدود میں اپنے بچوں کے ساتھ گوجرانوالہ سے لاہور آنے والی خاتون کا ویرانے میں پیٹرول ختم ہوگیا اور اس نے مدد کے لیے لاہور میں اپنے رشتہ داروں کو فون کیا وہ مدد کے انتظارمیں سڑک پر کھڑی تھی جب دو افراد نے نہ صرف لوٹ مار کی بلکہ خاتون کے ساتھ اس کے بچوں کے سامنے ریپ کیا ۔

اس واقعہ کی ایف آئی آر بدھ کی شام ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا سے آنے والے دباؤ پر کٹی کیونکہ 20گھنٹوں تک موٹروے پولیس اور مقامی پولیس کے افسران حدود کا تعین کرتے رہے کہ جائے وقوعہ موٹروے پولیس کے دائراہ اختیار میں ہے یا مقامی پولیس کے؟ ہمارے ہاں یہ معمول ہے کہ پولیس حدود کا تعین کرتی رہ جاتی ہے اور جرائم پیشہ کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں اتنی دیر میں‘ہمارے ایک سابق بیوروکریٹ دوست اسے حکومت‘قانون سازوں‘عدلیہ اور اداروں کی ناکامی کہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پولیس ایکٹ ہو یا سول پینل کوڈ جس بھی محکمے یا ادارے میں چلے جائیں وہ انگریزوں کے کالونیل عہد کے بنائے قوانین کے تحت چل رہا ہے وہ چیلنج کرتے ہیں کہ ثابت کیا جائے کہ1947کے بعد سے آج تک کون سا قانون ہے جسے ازسرنو بنایا گیا ہے ہر قانون کو آپ نے چند لائنوں کی ایک ترمیم ڈال کر ”پاکستانی اور مسلمان“کیا ہوا ہے جبکہ باقی پورا ایکٹ 1800کے وسط یا1900کے آغازکے قوانین پر مشتمل ہوگا یہ صرف پولیس اور عدلیہ میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ہرمحکمہ کالونیل عہد کے ”کاپی پیسٹ“ایکٹس پر چل رہا ہے۔

آج 2020میں ہماری عدالتیں1860کے سول پینل کوڈ کے تحت فیصلے کررہی ہیں جس میں آڈیو یا ویڈیوریکارڈنگ ثبوت نہیں مانا جاتا اسی طرح پولیس 1861کے ایکٹ کے تحت کام کررہی ہے ان کی ”جھریوں“اور ”بدبو“کو حکومتیں” میک اپ“کے ذریعے چھاپنے کی کوشش کرتی آئی ہے مگر160سال پرانی سرانڈ مارتی ان لاشوں سے اٹھتے بدبو کے بھبکے حکمرانوں کے محسوس ہوتے ہیں نہ ان طبقات کو جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ کالونیل عہد کی اس لعنت سے قوم کو نجات دلاتے ”گورا صاحب“چونکہ سب کچھ” براؤن صاحب“ کے سپرود کرکے گیا تھا ”براؤن صاحب“اتنا وفادار نکلے گا اس پر گورا صاحب خود پریشان ہے ہماری اشرافیہ قدم قدم پر ”کمپنی بہادر“کویقین دلاتی ہے کہ ہماری بڑے آپ کے وفاردار تھے اب ہماری آنے والی نسلیں بھی آپ کی وفادار رہیں گی۔

سانحہ ساہیوال ہو یا ایک ذہنی طور پر بیمار انسان کی تشدد سے ہلاکت ہر جگہ ناانصافی نظر آتی ہے‘قصور ویڈیو سیکنڈل میں طاقتور بچ کے نکل گئے جبکہ چند مہروں کو پکڑپر ایسا کمزور کیسا بنایا گیا کہ وہ بھی ایک ایک کرکے رہا ہورہے ہیں انہوں نے ”قانون کے لمبے ہاتھوں“ کی لمبائی ناپ لی ہے ”ڈر“ان کے دلوں سے نکل گیا ہے اب وہ انہیں ”راستوں “کا پتہ چل گیا کہ اس سے بڑا اور قبیح برم بھی کرکے آجائیں تو بچ کر کیسے نکلنا ہے یہ ہمارے قانون نے انہیں بتایادیا ہے ۔

طاقت کے نشے میں چور الحمید اچکزئی نے ایک انسان کو نہیں بلکہ ”لاء آف دا لینڈ“اور ریاست کو اپنی گاڑی سے روندا تھا مگر ریاست نے اس کا کیا اکھاڑ لیا؟ سانحہ ساہیوال میں مدعیان کو ڈاریا دھمکایا گیا ان پر دباؤڈال کر کیس واپس لینے پر مجبور کیا گیا ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان میں درجنوں شہریوں کی جانب سے بنائی گئی ویڈیوزپیش کی گئیں مگر کیا نتیجہ کیا نکلا؟ملزمان کا تعلق جس بھی محکمے سے تھا مگر قانون سے سامنے ان کو جواب دہ کیوں نہیں بنایا جاسکا؟ کیونکہ ہمارے ہاں 1861کا پولیس ایکٹ اور1860کا سول پینل کوڈ جوکہ گورے صاحب نے خود کو اور اپنے کارندوں کو قانون کی گرفت سے بچانے کے لیے بنائے تھے 73سالوں سے براؤن صاحب انہیں خود کو اور اپنے کارندوں کو بچانے کے لیے استعمال کررہا ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ یہ صرف پولیس یا عدالتوں تک کا معاملہ نہیں پاکستان کے کسی بھی محکمے کو اٹھالیں کہ وہ کس ضابطے اور قانون کے تحت کام کررہا ہے تو آپ کو جھٹکا لگے گا کہ ہم ابھی تک1850/60سے نہیں نکل پائے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے قانون ساز73سالوں سے کیا کرتے آئے ہیں ؟ہماری عدالتیں ‘ادارے اور پوری حکومتی مشنری کیا کرتی آئی ہے؟آپ خدانخواستہ کسی سول مقدمے میں پھنس جائیں تو کئی کئی نسلوں کو وہ مقدمہ کیوں بھگتنا پڑتا ہے جبکہ طاقتور کے خلاف تمام ثبو ت ‘گواہ ہوتے ہوئے تھی اس کے خلاف کوئی کاروائی کرنے سے قاصر ہے ہمارا قانون تو اس کی بنیادی وجہ براؤن صاحب کی ذہنیت ہے جس نے 73سالوں میں سول پینل کوڈ بننے دیا نہ ملکی اداروں کو چلانے کے لیے نئے قواعد وضوابط ‘اس صورتحال میں آپ اگلے ہزار سال تک بھی کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے جب تک آپ ”کالونیل عہد“کے اس گند کو اٹھا کر سمند ر برد نہیں کریں گے ”ترقیاتی کاموں“ کا قانون سازوں سے کیا تعلق ؟دنیا بھر میں ترقیاتی کام بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے جبکہ قومی اسمبلی اور سینٹ جیسے اداروں کا کام قانون سازی ہوتا ہے ‘امریکا کے انتخابی نظام انتہائی پچیدہ ہے جس میں صدرارتی نظام ہونے کے باوجود صدر عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب نہیں ہوتا بلکہ ریاستوں کے آبادی کے تناسب سے ”الیکڑول ووٹ“فائنل اتھارٹی ہیں وہ طے کرتے ہیں کہ آئندہ صدر کون ہوگا جبکہ براہ راست ملنے والے ووٹوں کو ”پاپولرووٹ“کہا جاتا ہے یہ ”الیکٹرول کالج“کی ہی کرشمہ سازی تھی کہ ٹرمپ کے مقابلے میں 30لاکھ زیادہ براہ راست ووٹ حاصل کرنے والی ہیلری کلنٹن ہار جاتی ہیں اور عوام کے براہ راست ووٹ میں مسترد قرار پانے والے ڈونلڈ ٹرمپ ”الیکٹرول کالج“کی کرشمہ سازیوں سے ااول آفس میں جابیٹھتے ہیں امریکا کے دنوں ایوانوں میں آج تک سب سے زیادہ تحریکیں الیکٹرول کالج کے خاتمے کے جمع کروائی گئی ہیں مگر ہاں کے ”صاحب بہادر“نے بھی آج تک ان قراردادوں کو منظور نہیں ہونے ویا مگر وہاں پھر بھی ریاستی کی خودمختاری اور قوانین سے کسی حد تک ازالہ ہوجاتا ہے یہاں امریکا کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ ریاست متحدہ امریکا کے بانیان نے الیکٹرول کالج اس لیے قائم کیا کہ ان کا خیال تھا کہ عوام غلط فیصلہ کرکے کسی غلط شخص کو صدر نہ چن لیں(یعنی جمہوریت اور جمہور کی بات کتنے والے اسی عوام پر عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں اور قراردے رہے ہیں کہ انہیں اچھے برے کی تمیزنہیں) اس لیے الیکٹرول کالج قائم کیا گیا یہاں امریکا کی مثال اس لیے دی ہے کہ بانیان امریکا نے آئین کے آرٹیکل2سے 4تک ایوان نمائندگان‘سینٹ‘انتخابات اور الیکٹرول کالج کا ذکر کیا ہے امریکی آئین کی ان شقوں کو پڑھیں تو آپ کو ”جمہوریت“کا پتہ چل جائے گا یہ برطانیہ سے مستعار لی گئی سوچ اور نظریہ تھا کیونکہ بانیان یورپ اور برطانیہ کے باشندے تھے یہی صورتحال ہمیں پاکستان میں نظر آتی ہے یہاں پارلیمانی نظام ہے مگر کیا وزیراعظم کو براہ راست عوام چنتے ہیں؟ نہیں یہاں بھی الیکٹرول کالج آجاتا ہے ایک طرف جمہوریت کو جمہور کا نظام کہا جاتا ہے اور دوسری طرف اسی جمہور پر عد م اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ”متبادل بندوست“رکھے ہوئے ہیں صدر‘وزیراعظم‘چیف جسٹس‘صوبوں کے گورنرزاور وزراء اعلی اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو براہ راست عوام کے ووٹ سے منتخب کیا جانا اصل معنوں میں تبدیلی ہوگی۔

کئی ملکوں میں پولیس ‘سرکاری محکوں کے سربراہان کو عوام براہ راست ووٹ سے منتخب کرتے ہیں ان محکموں میں عدلیہ‘پولیس اور سرکاری محکموں کی کارکردگی انتہائی شاندار کیوں ہوتی ہے؟ایک انہیں پیسوں سے متعلقہ امور سے دور رکھا جاتا ہے وہ اپنی ڈیمانڈز متعلقہ محکمہ خزانہ کو ارسال کرتے ہیں دوسرا ایک انتہائی سخت قسم کا آڈٹ سسٹم موجود ہے جو حکومت کے ماتحت نہیں ہوتا بلکہ ریاست کے تحت کام کرتا ہے ان کی وفاداریاں ریاست کے ساتھ ہوتی ہیں حکومتوں کے ساتھ نہیں لہذا وہ وہی کرتے ہیں جو ریاست کے مفاد میں ہوتا ہے تیسرا عوام کا خوف ہوتا ہے کہ بہترکارکردگی نہ دکھانے پر انہیں گھر جانا پڑے گا عوام انہیں دوبارہ منتخب نہیں کریں گے لہذا پولیس ہو یا سرکاری اہلکار وہ خود کو حکومت کا ذاتی ملازم سمجھنے کی بجائے عوا م کے ملازم کے طور پر کام کرتے ہیں جنہوں نے انہیں منتخب کیا ہوتا ہے۔

بات لاہور میں پیش آنے والے المناک سانحہ سے شروع ہوکر لاشعوری طور پر دوسری جانب نہیں جانکلی بلکہ مقصد جڑ تک پہنچنا ہے ہمارے دانشور جن کی ”دانش“ایک محضوص گروہ ‘پارٹی یا سوچ تک جاکر دم توڑ دیتی ہے انہیں چاہیے کہ وہ مکھی پر مکھی نہ ماریں بلکہ مسئلہ کی جڑ تک پہنچے کی عادت ڈالیں اور اس کا حل بھی تجویزکریں ہوسکتا ہے میرا آئیڈیا ناقص ہومگر اس پر بحث تو شروع ہونی چاہیے کہ پاکستانی عوام کا حق ہے کہ ڈیڑھ ‘دو سوسال پرانے فرسودہ اور بدبودار قوانین کو بدلا جائے یہ اشرافیہ کے لیے تو بہترین ہوسکتے ہیں مگر عوام کے لیے ہرگزنہیں۔ (جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :