عظیم جنگ کا میدان بنتا مشرق وسطحی اور پاکستان کے مسائل ۔ آخری قسط

ہفتہ 5 دسمبر 2020

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

غلام قادر روہیلہ نے1787میں مغلیہ سلطنت کے سولہویں شہنشاہ مرزا عباللہ جو شاہ عالم ثانی کے لقب سے مشہور تھا اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے دہلی پر حملہ آور ہوا اور مغل لشکر کو بری طرح شکست دے کر تحت دہلی پر قابض ہوگیا اور شاہ عالم ثانی کی آنکھیں نکلوادیں اس کے بعد اس نے دبار تیموری میں جو کیا وہ المناک حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے غلام قادر روہیلہ نے لال قلعہ کے دیوان خاص میں جہاں کبھی شہاب الدین محمد شاہجہاں اور اورنگزیب عالمگیر تخت طاؤس پر بیٹھ کر ہندوستان کی تقدیر کے فیصلے کرتے تھے‘ اسی دیوان خاص میں اس نے مغل شہزادیوں کو ناچنے کا حکم دے دیا اور خود خنجر پاس رکھ کر سوتا بنا لیکن مغل شہزادیاں ناچتی رہیں اس وقت غلام قادر روہیلہ نے یہ تاریخی جملہ بولا:
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
شاہ عالم ثانی کی آنکھیں نکالنے کے بعد اس کے حرم کی عورتوں کو رقص کا حکم دیا جب روہیلہ نے دیکھا کہ وہ مغل شہزادیاں اس کے حکم پر عمل کر رہی ہیں تو اس کو کچھ شرم آئی اس نے اپنی تلوار اور خنجر کھول کر تھوڑا دور رکھ کر یوں فریب کیا کہ جیسے وہ سو رہا ہے مگر مغل شاہی حرم کی عورتیں رقص کرتی رہیں جس پر اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا میں نے تمھیں موقع دیا تھا کہ میرے خنجر سے ہی میرا خاتمہ کردو، لیکن افسوس خاندانِ تیمور سے غیرت ختم ہو چکی ہے۔

(جاری ہے)

عالم اسلام کی صورتحال بھی اس وقت مغل حرم کی عورتوں کی سی ہے حمیت نام کی کوئی چیزنظرآتی ہے مسلمان دنیا میں؟پورے عالم اسلام میں نظریں دوڑالیں کسی جگہ حمیت نام کی کوئی چیزنہیں آرہی عرب تو مکمل طور پر سرنڈرکرچکے ہیں جبکہ پاکستان جیسے ملک کو اس کے لیے دبایا جارہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں ۔ اسی دوران میں تہران میں جوہری پروگرام کے معمار محسن فخری زادہ کے قتل پر نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 2 امریکی ذرائع کا ماننا ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل ہے یہی وہ امکان ہے جس پر ممکنہ طور پر سعودی سرزمین پر ہونے والی خفیہ ملاقات میں بات ہوئی کہا جاتا ہے کہ ایران پر حملے کے متعلق اسرائیلی وزیراعظم بات کرتے رہے اور مائیک پومیو نے اس ایشو پر کوئی صلاح نہیں دی اسرائیلی وزیراعظم نے ایران کے جارحانہ رویے کے خلاف مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے متحد ہونے پر بات کی یوں لگتا ہے کہ مائیک پومپیو ایران پر اسرائیلی حملے کی خاموش وکالت کے لیے موجود تھے اور اس ملاقات کا اہتمام بھی اسی لیے کیا گیا تھا۔

مائیک پومپیو نے سعودی ولی عہد کو یہ کہہ کر اس ملاقات پر آمادہ کیا تھا کہ اگر بائیڈن انتظامیہ کے دباوٴ سے بچنے کے لیے وہ ری پبلکنز کی مدد چاہتے ہیں تو انہیں صدر ٹرمپ اور اسرائیلی لابی کو خوش کرنا ہوگا سعودی ولی عہد کو اس ملاقات میں فکرمند پایا گیا لیکن ایران پر حملے کے متعلق منصوبے پر ان کا جواب کیا تھا ابھی کچھ سامنے نہیں آیا یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عرب امارات نے اسرائیل سے تعلقات کے بدلے امریکا سے ایف35 طیارے لیے، مگر سعودی ولی عہد اس سے بڑا پیکج چاہتے ہیں، جس میں ایف35 طیاروں کے علاوہ آرمرڈ گاڑیوں کے لیے ایکٹو پروٹیکشن سسٹمز، میزائل ڈیفنس بیٹریز، الیکٹرانک انٹرفیس سسٹمز، ایڈوانس ریڈارز، ایم کیو نائن ریپر ڈرونز اور بحری دفاعی سامان شامل ہے تازہ ترین خبر ایرانی سائنسدان کا تہران کے نواح میں قتل ہے دراصل اسرائیل نے اس قتل کے ذریعے ایران کو کسی ایسے اقدام پر اکسانے کی کوشش کی ہے جس سے خطے میں کوئی نئی لڑائی چھڑ جائے اور بائیڈن انتظامیہ آتے ہی جوہری معاہدے یا مذاکرات کے بجائے اس لڑائی میں الجھ جائے ایران نے اگرچہ بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے تاہم ایران ایسے کسی قدم سے گریز کرے گا جس سے کھلی جنگ کے خدشات پیدا ہوں۔

امریکی انتخابات کے بعد ایران نے نئی انتظامیہ آنے تک خطے میں اپنی پراکسیز کو محتاط رہنے کا پیغام اس واقع سے پہلے ہی بھجوا دیا تھا ایران نے اپنے اعلیٰ ترین جرنیلوں کو بغداد اس پیغام کے ساتھ بھجوایا تھا کہ بائیڈن کے چارج سنبھالنے تک تمام حملے روک دیے جائیں بریگیڈیئر جنرل قاسم قاسم قاآنی نے تمام پیرا ملٹری اور ملیشیاز کو کہا تھا کہ انتخابات میں شکست کے انتقام کے لیے ٹرمپ پورے خطے کو کھلی جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے، ایسی کسی حرکت کے لیے ٹرمپ کو جواز مہیا کرنا ہمارے مفاد میں نہیں ہے جنرل قاآنی کے اس خدشے کی تائید ایرانی سائنسدان کے قتل کے بعد صدر ٹرمپ کے ری ٹویٹس سے ہوئی۔

صدر ٹرمپ نے اسرائیلی صحافی کے 2 ٹویٹس ری ٹویٹ کیے جن میں کہا گیا کہ محسن زادہ کا قتل ایران کے لیے بڑا دھچکا ہے تاہم ایران بائیڈن انتظامیہ کے چارج سنبھالنے کا انتظار کرے گا اور کسی کھلی انتقامی کارروائی سے گریز کرے گا ایران کو بائیڈن سے توقعات اس لیے بھی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ خود کانگریس کو سرٹیفکیٹ دے چکی ہے کہ ایران جوہری معاہدے کی پابندی کررہا ہے نئی انتظامیہ کے لیے جوہری معاہدے کی طرف واپسی کا دروازہ بھی ٹرمپ انتظامیہ نے کھلا چھوڑا ہے اور اب اس دروازے کو کسی دوسرے ذریعے سے بند کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے ”ہنی مون پریڈ“کے دوران ہی تل ابیب نے ابوظہبی کو پر اس کی اہمیت اور حیثیت کو واضح طور پر بتادی ہے چند روزقبل فلائی دوبئی کی پہلی کمرشل پرواز بڑی دھوم دھام سے اسرائیل کے لیے روانہ ہوئی تو اسرائیلی وزیراعظم کے ترجمان نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کیا کہ نتن یاہو خود اس پروازکو استقبال کریں گے مگر جب پروازتل ابیب پہنچی تو وزیراعظم نتن یاہوتو کیا ان کی کابینہ کا کوئی وزیربھی استقبال کے لیے موجود نہیں تھا بلکہ اسرائیلی وزیراعظم کے سٹاف کے ایک اہلکار نے اس پروازکا استقبال کیایہ امارات کے لیے ایک واضح پیغام تھا اگر وہ سمجھیں تو۔

اس صورتحال میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟یہ سوال ہر کسی کے دماغ میں ہے پاکستان کو عربوں پر انحصار کم کرنے کے ساتھ ساتھ خود کو مظبوط کرنا چاہیے سوویت یونین کے پاس ہم سے زیادہ اٹیم بم اور طاقتور فوج تھی مگر وہ اپنے وجود کو برقرارنہیں رکھ پایا تھا کیونکہ اس کی معیشت میں سکست نہیں تھی اور اس بات کو خود روسی مانتے ہیں کہ معاشی کمزوری کی وجہ سے سوویت یونین کو شکست کو سامنا کرنا پڑا لہذا ہمیں فوجی قوت کے ساتھ ساتھ خود کو معاشی طور پر مظبوط کرنا چاہیے اور باہمی اختلافات (چاہے وہ سیاسی ہوں یا مسلکی)کو بھلا ایک قوم بننا چاہیے ہم زرعی ملک ہوتے ہوئے اقوام متحدہ کی فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے بدترین صورتحال کا شکار ملکوں کی فہرست میں ہیں یہ کوئی سازشی تھیوری نہیں بلکہ حقیقت بن کر ہمارے سامنے کھڑی ہے ۔

یہ بات اب رازنہیں رہی کہ دنیا کی ملٹی نیشنل کمپنیاں خوراک اور پانی کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں اپنے ذہنوں پر زوردیں کہ سال2000کے آغازتک پاکستان میں کسی نے بوتل بند پانی کے بارے میں سوچا تھا؟آج 2020میں پاکستان جیسے ملک میں بوتل بند پانی ملٹی ملین ڈالر کی انڈسٹری بن چکی ہے‘اسی طرح لیب میں تیار شدہ ”گوشت“ مارکیٹ میں فروخت کرنے کی اجازت دی جاچکی ہے یعنی مستقبل قریب میں آپ ڈبہ بند دودھ کی طرح لیب میں تیار شدہ ”گوشت“خریدنے پر مجبور ہونگے اس کے حلال ہونے کے فتوی” اسلامی بنکاری “کی طرح ہی ”فتوی فروشوں“سے خرید کر مسلمانوں کی تسلی کا بندوبست کردیا جائے گا۔

پاکستان جیسا زرعی ملک جس کا ایک صوبہ پنجاب پورے ہندوستان سمیت ایران اور افغانستان کو پالتا تھا ٓآج اناج کے دانے وانے کا محتاج نظرآتا ہے تو دوسری جانب پانی ختم ہوتا جارہا ہے ‘اب فیصلہ کن اقدامات کا وقت ہے اگر فوری اور ٹھوس اقدامات نہ کیئے گئے تو قدرت اپنا قانون نہیں بدلے گی اور ہماری نااہلیوں اور نالائقیوں پر ہمیں ذلالت میں دھکیل کر کسی اور قوم کو اپنے مشن کی تکمیل کے لیے لے آئے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :