گلگت بلتستان کے الیکشن

پیر 9 نومبر 2020

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول زرداری صاحب نون لیگ کی نائب صدرمریم صفدر اعوان صاحبہ اور عمران خان نیازی صاحب، وزیر اعظم پاکستان اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف، گلگت بلتستان میں عوام کو سبز باغ اورسہانے خواب دیکھانے اور عوام کر ایک بار پھر بے وقوف بنانے کے لیے اپنے اپنے پتے پھینک رہیں ہیں۔یہ بات ذہن میں رہے کہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کی یہ ریت رہی ہے کہ جو سیاسی پارٹی مرکز میں اقتدار پر قابض ہوتی ہے۔

اسی کو ووٹ دے کے منتخب کرتے رہے ہیں۔ شاید ان کو اس بات کا ادراک ہے کہ مرکز سے ہی ترقیاتی فنڈز لینے ہوتے ہیں، لہٰذا ان کوہی الیکشن میں منتخب کرنا چاہیے۔ اِس وقت بھی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں نون لیگ کی حمایت یافتہ حکومتیں ہیں۔

(جاری ہے)

آزاد کشمیر میں فاروق حیدر صاحب اور گلگت بلتستان میں حافظ حفیظ الرحمان صاحب حکمران ہیں۔اس کی وجہ شایدیہ ہے کہ مرکز میں ۲۰۱۸ ء تک نواز لیگ کی حکومت تھی۔


پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے اپنی مصنوئی تقریروں میں گلگت بلتستان کے عوام کو دودھ کی نہریں دینے کے وعدے کیے ہیں۔ مصنوئی اس لیے کہہ رہے ہیں کہ بقول عمران خان بلاول زرداری چیئر مین نے پاکستان کی زمین پر کبھی زندگی میں دس قدم بھی نہیں چلے۔ وہ پاکستان کے حالات اور غریبوں کی پریشانی کیا سمجھ سکتے ہیں۔ ایک تو ان کو جعلی پرچی سے پیپلز پارٹی ملی۔

دوسرے جو ساری زندگی ملک سے باہر گزار تے رہے اور نہ ہی کسی قسم کی سیاسی جد وجہد کی۔ پیپلز پارٹی تین دفعہ اقتدار میں رہی۔ کیا ان کے کوئی شاندار کارنامے ہیں جن کی بنیاد پر کہا جائے کہ اب اگر گلگت بلتستان میں ان کو عوام اقتدار میں لائیں تو جو کچھ عوام کی خدمت میں کمی رہ گئی تھی، اب اسے پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔
دیکھا تو گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کلا بازیاں ہی مارتی رہی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قائد اعظم کے اسلامی وژن اور پاکستان کی بنیاد ”لا الہ الا اللہ “ سے ہٹ کر سوشلزم کی بنیاد پر منشور بنایا۔ پاکستان کے اداروں کو حکومت کی طویل میں لے لیا۔ عوام کو روٹی کپڑا مکان کاپُر فریب نعرہ دیا۔ملک میں ترقی کیا ہوتی، غریب عوام کی حالت کیا بدلتی،اُلٹا افراط زر کی وجہ سے مہنگاہی نے جنم لیا۔ اپنے مخالفوں کو قتل کرایا، جس میں کوئٹہ کے عبدالصمد اچکزئی اورڈیرہ غازی خان کے میاں رمضان قابل ذکر شامل ہیں۔

پیپلز پارٹی کے بنیادی ارکان یعنی اپنے ہی ساتھیوں جیلوں میں ڈالا۔ اپوزیشن کے لوگوں لاہور کے شاہی قلعے میں اذیتیں دیں۔ الیکشن میں تاریخی دھاندلی کی۔ پاکستان میں پہلی بار پہیا جام ہڑتال اسی دور میں ہوئی تھی۔
جبکہ قائد اعظم نے برعظیم کے عوام سے اپنے وعدوں کے مطابق پاکستان بننے کے بعدپاکستان کے سارے اداروں کو اسلام کے رنگ میں رنگنے کے لیے قائد اعظم  نے ایک ادارہ بنایا تھا۔

جس کا نام ” ریکنسٹرنشن آف اسلامک تھاٹ“ تھا۔ اس کا سربراہ نو مسلم علامہ اسد کو بنایا تھا۔ اس ادارے کے فنڈز کے لیے وزارت مالیات کو قائد اعظم  نے خود خط لکھا تھا۔ علامہ اسد  نے اس پر کام شروع ہی کیا تھا کہ اللہ کا کرنا کی قائد اعظم کو اللہ نے جلد اپنے پاس بلا لیا۔ اسکے بعد مسلم لیگ کے کچھ کھوٹے سکوں نے علامہ اسد کو اس ادارے سے ہٹا کر بیرون ملک سفیر بنا کے بھیج دیا۔

ایک قادیانی بیروکریٹ نے اس ادار ے کے ریکارڈ کو آگ لگا دی۔ کھوٹے سکوں نے کہا کہ اس دور میں چودہ سو سالہ اسلامی نظام نافذ نہیں ہو سکتا؟
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نذیر بھٹو کا دور آیا۔ اس میں بھی غریب عوام کی قسمت نہ بدلی۔ سستی شہرت کے لیے بجلی کے مہنگے پروجیکٹس لگائے۔ پاکستان میں ۱۲/ روپے فی یونٹ کے حساب سے بیرون ملک کمپنی کے ساتھ معاہدکیا، جبکہ اسی کمپنی نے بنگلہ دیش میں پانچ روپے فی یونٹ کا معاہد ہ کیاتھا۔

زرداری صاحب مرد اوّل نے اس دور میں کرپشن کے ریکارڈ توڑنے پر مسٹر دس پرسنٹ کا اعزاز حاصل کیا۔ بے نذیر بھٹوکی شہادت کے بعد زرداری صاحب پاکستان کے صدر بنے ۔ اس دور میں سرے محل اور سوئزرلینڈ کے بنکوں میں کرپشن کے پیسے چھپانے کا انکشاف ہوا ۔سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا جیلانی کو سوئس حکومت کو خط لکھنے کا حکم دیا۔ انہوں نے خط لکھنے سے انکار کر دیا۔

سپریم کورٹ نے انہیں کنٹپٹ آف کورٹ پر وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا۔ دوسرے وزیر اعظم راجہ رینٹل کہلائے۔ وہ بھی کرپشن کی وجہ سے ہٹائے گئے۔ جب ترکی کے صدر اردگان کی بیوی نے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے اپنا قیمتی ہار دیا تو اسے توشے خانے سے چرا کر یوسف رضا جیلانی نے اپنی بیوی کے گلے میں ڈال دیا۔ اب بلاول زرداری جو ہمیشہ ملک سے باہر رہا ۔

جسے پیپلز پارٹی ایک جعلی پرچی کے وجہ سے ملی ۔جسے پاکستان کی سیاست عوام کے مسائل کا الف بے کا کچھ بھی نہیں پتا ۔ جو اُردو میں خطاب بھی نہیں کر سکتا۔ جسے رومن اُردو میں لکھی ہوئی تقریر دی جاتی ہے ۔ا پنے نا نا، امی اور والد کے کارنامے پتا پتا کر گلگت بلتستان کے عوام کو ایک بار پھر دھوکا دے رہا ہے ۔پیپلز پارٹی نے تین بار حکومت کی۔ مگر پاکستان اورر گلگت بلتستان کے عوام کی حالت نہ بدلی تو اب کیا بدلے گی؟
اسی طرح مریم صفدر اعوان جوسیاست کی الف بے بھی نہیں جانتی۔

ایک کھریلو خاتون تھی۔ صرف اپنے والد اور اپنی کرپشن بچانے کے لیے فوج اور عدلیہ کو نشانہ بنایا ہوا ہے۔ ان کو پاکستان اور گلگت بلتستان کے عوام کی قسمت بدلنے کے خواب دیکھانے کے سوا کچھ نہیں کرنا۔ اگر کچھ کرنا تھا تواپنی تین بار دورحکومت میں نوز لیگ حکومت کرتی۔بقول عمران خان نواز شریف جو ایک اتفاق فوؤنڈری سے گیارا فیکٹریوں کے مالک بن گئے۔

لندن کے مہنگے علاقے میں فلیٹ کے مالک بنے۔ مریم جو کہتی تھی کہ بیرون ملک کیا، میری تو پاکستان میں بھی کوئی جائیدادنہیں۔ پھرجے آئی ٹی نے جائیداد ڈھونڈ نکالی۔ مریم نے جعلی کاغذات عدالت میں جمع کرائے ۔ اس پر پھر قید کی سزا پائی۔ ایسی لیڈر کو باپ نواز شریف کی طرح سیاست سے باہر ہونا چاہیے۔
عمران خان وزیر عظم پاکستان اور چیئر مین تحریک انصاف پاکستان ،خود تو کرپشن فری ہیں۔

مگر ان کے بھی ارد گرد کرپٹ لوگ ہیں۔ وہ ملک سے کرپشن ختم کرنے کے منشور سے الیکشن جیت کر آئے ہیں۔ اس لے لیے پر عزم بھی ہیں۔ اپوزیشن ان سے کسی طرح کرپشن میں سزا اور منی لنڈرینگ کے مقدمات ختم کرا سکتی۔نواز شریف کبھی فیٹیف کے قانون کے بدلے نیب کے قوانین تبدیل کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ کبھی فوج کے سربراہ سے ملاقاتیں کرا کے معافی کی درخواتیں کرتے رہے۔

مگر ادھر سے کچھ نہ ملا تو دوبارہ فوج اور عدلیہ کو بدنام کرنا شروع کر دیا۔ نواز شریف کی کوشش ہے کہ کسی طرح ان کے مقدمے ختم ہوں۔ مگر عمران نے سخت رویہ اختیار کیا ہوا ہے ۔ اس معاملے میں عوام بھی ان کے ساتھ ہے ۔ مگر پاکستان میں مہنگاہی کے عروج کی وجہ سے عوام پریشان ہے۔ اس نے گلگت بلتستان کے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنائے گا۔

ٹھیک ہے یہ تو بن جائے گا۔ صوبہ بننے سے چین پاکستان اقتصادی رہداری کو بھی تقویت ملے گی۔ مگر مہنگاہی ختم نہ ہوئی تو عمران خان کی مرکزی حکومت بھی پانچ سال پورے کرنے کے قابل نہیں رہے گی تو گلگت بلتستان کے عوام بھی مہنگاہی کی چکی میں پستے رہیں گے۔ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی تین بار باریوں کے دوران گلگت بلتستان کے لیے کچھ نہ کرنے کی وجہ سے عوام اب تحریک انصاف پاکستان کو ووٹ دے کر کامیاب کریں۔

دوسرا مرکز میں حکومت کا بھی فاہدہ بھی تحریک انصاف پاکستان کو مل رہا ہے۔
صاحبو! ان پاکستان کے سیاست دانوں نے ملک میں سیاست کو کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ ورنہ سیاست تو عبادت ہے۔ عوام کو چاہیے کہ کرپشن فری اور سیاست کو عبادت سمجھنے والوں کو اقتدار میں لائیں۔ایسے لوگ پاکستان کے گلی کوچوں میں عوام کے ساتھ رہتے ہیں۔اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود عوام کی  فلاح بہبود کے ادارے بھی کامیابی اور ایمانداری سے چلا رہے ۔ ایسی ہی سیاسی پارٹی کو اقتدار میں لانے سے پاکستان ، گلگت و بلتستان کے عوام کی حالت بدل سکتی ہے۔ وگرنہ حالت اس بھی بدتر ہو جائیں گے۔ حالات بدلنا عوام کے ہاتھ میں ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :