بلاول بھٹو کی پیپلز پارٹی

جمعہ 22 جنوری 2021

Mohammad Faisal

محمد فیصل

پاکستان پیپلز پارٹی بڑی عجیب جماعت ہے۔ آپ اس سے نفرت کریں یا محبت لیکن ملک کی سیاست سے آپ اسے کسی طور بھی مائنس نہیں کرسکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پھانسی سے قبل کہا تھا کہ مردہ بھٹو زندہ بھٹو سے زیادہ عوام کے دلوں پر راج کرے گا۔ اسے ایک سیاسی معجزہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ گڑھی خدا بخش میں مدفون بھٹو کا نام آج بھی ملک کی سیاست کا محور ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی میراث کو آگے لے کر چلنے والی بے نظیر بھٹو کو جب دہشت گردوں نے شہید کیا تو پارٹی کی بقاء کے حوالےسے کئی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ وصیت کی بنیاد پر شرکت کی بنیاد پر پارٹی کی قیادت سنبھالنے والے آصف زرداری بھٹو تو نہ تھے لیکن پاکستان کی سیاست کے نبض شناس ضرور ہیں۔ان کو یہ کریڈٹ ضرور دیا جانا چاہیے کہ انہوں نے مشکل مرحلے میں پارٹی کو بکھرنے سے بچایا لیکن ان کے نام سے منسوب کرپشن کے قصے اور کیسز پارٹی کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئے۔

(جاری ہے)

زرداری صاحب کے ناقدین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کو اتنا نقصان کسی آمر نے نہیں پہنچایا جتنا خود زرداری صاحب نے پہنچایا ہے۔پیپلز پارٹی جو چاروں صوبوں کی زنجیر کہلاتی تھی آخری عام انتخابات میں سندھ کی ایک جماعت کے طور پر سامنے آئی۔
پیپلز پارٹی 2008 سے سندھ میں برسراقتدار ہے۔ 12 سال کا عرصہ کسی بھی صوبے یا علاقے میں بنیادی تبدیلی لانے کے کافی سمجھا جاتا ہے لیکن پیپلز پارٹی اب تک وہ نتائج دینے میں ناکام رہی ہے جس کی عوام اس سے توقع رکھتے ہیں۔

قائم علی شاہ جیسی بزرگ اور غیر فعال شخصیت کو طویل عرصے تک وزیر اعلیٰ بنائے رکھنا پیپلز پارٹی کی ایک سیاسی غلطی تھی۔قائم علی شاہ پارٹی قیادت کے حکم بجالاتے رہے اور عوام کے لیے  کوئی ایسا کام نہ کرسکے کہ لوگ ان کو یاد رکھ سکیں۔2018 کے عام انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کی عملی قیادت بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ آگئی اور لوگوں نے دیکھا کہ پارٹی کی انتخابی  مہم میں زرداری صاحب پیچھے چلے گئے حتیٰ کہ امیدواروں کے بینرز اور پوسٹروں پر سے بھی ان کی تصاویر غائب ہوگئی۔

پارٹی کے اس طرز عمل سے ایسا محسوس ہوا کہ نئی قیادت کو بھی احساس ہے کہ کرپشن کے کیسز میں گھرے زرداری صاحب کا پس منظر میں جانا ہی پارٹی کے لیے بہتر ہے۔
بلاول بھٹو کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ اگر وہ پیپلز پارٹی کو واقعی ایک مرتبہ پھر ملک کی زنجیر بنانا چاہتے ہیں تو ان کو پیپلز پارٹی کی سندھ میں بیڈ گورننس کے تاثر ختم کرنا ہوگا اور کرپشن زدہ پارٹی رہنماٶں سے خود کو دور رکھنا ہوگا۔

مراد علی شاہ ایک متحرک وزیر اعلیٰ ہیں جن کے بارے میں شیخ رشید کا بھی یہی خیال ہے کہ وہ اس وقت ملک کے سب سے فعال وزیر اعلیٰ ہیں۔ سندھ میں اس وقت کوئی مثالی صورتحال نہیں ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی ہاتھ پر ہاتھ باندھے بیٹھی ہے۔ کراچی سمیت سندھ بھر صوبائی حکومت کی جانب ترقیاتی کام بھی ہورہے ہیں اور بہت سے  انقلابی اقدامات بھی کیے گئے ہیں جن میں مزدور کارڈ کے اجرا سمیت محنت کشوں میں مفت فلیٹس کی تقسیم بھی شامل ہے۔

اس کے علاوہ شعبہ صحت میں بھی  بہت سے اچھے کام ہوئے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے ساتھ بیڈ گورننس کا جو لاحقہ لک گیا ہے وہ اس سے پیچھا چھڑانے میں ناکام نظر آرہی ہے۔
اس کو بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے اچھے کاموں کو کیش کرانے میں ناکام نظر آتی ہے اور اس کی ایک بنیادی وجہ حکمت عملی کا فقدان ہے ۔آج میڈیا اور سوشل میڈیا کا دور ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ناصر شاہ،سعید غنی اور مرتضیٰ وہاب کے علاوہ پارٹی کا موقف اورصوبائی حکومت کی کارکردگی لوگوں کے سامنے رکھنے والی کوئی اور شخصیت موجود نہیں ہے۔

پارٹی کے ان تین رہنماٶں نے ترجمانی کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھایا ہوا ہے۔ان کے علاوہ دیگر وزرا اور ارکان اسمبلی کو ایسا لگتا ہے کہ پارٹی سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔بلاول بھٹو زرداری کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ سندھ ان کے لیے وہ کنجی ہے جس سے وہ پورے ملک کا تالا کھول سکتے ہیں۔ انہیں ملک کے دیگرحصوں تک یہ پیغام پہنچانا ہوگا کہ بطور پارٹی پیپلز پارٹی کا کرپشن سے کوئی تعلق نہیں۔ سندھ کی حکومت ان کے پاس ہے۔ ایک اچھی سوشل میڈیا ٹیم تشکیل دے کر وہ صوبائی حکومت کے اچھے کاموں کو عوام کے سامنے لائیں اور لوگوں کو بتائیں کہ یہ ہے بلاول بھٹو کی پیپلز پارٹی جس کاکرپشن اور بیڈ گورننس سے کوئی تعلق نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :