
پنجاب میں پیپلز پارٹی کی واپسی
جمعہ 10 دسمبر 2021

محسن گورایہ
(جاری ہے)
ایسا لگتا ہے جیسے ووٹر مسلم لیگ ن اورتحریک انصاف کی سیاست اور کار کردگی کے مقابلے میں اب پیپلز پارٹی کو بھی آزمانا چاہتے ہیں ، مگراس کافیصلہ تب ہو گا جب یہ معلو م ہو سکے کہ اسلم گل کو ملنے والے ووٹ وہ تھے جو گزشتہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کو ڈالے گئے تھے یا یہ ووٹ تحریک انصاف کے ہیں جس کا کوئی امیدوار میدان میں نہ تھا،موخرالذکر بات سے اتفاق یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف ن لیگی امیدوارکی ہر حال میں شکست چاہتی تھی اسلئے ممکن ہے اس کے کارکنوں نے اسلم گل کو ووٹ ڈالے ہوں،یہ بھی ممکن ہے کہ آصف زرداری کی جادوکی پڑیا اور مفاہمت کی سیاست کام دکھا گئی ہو جنہوں نے الیکشن کے دنوں میں لاہور میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو متحرک رکھا اور پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف ،قمر زماں کائرہ،چودھری منظور انتخابی مہم میں دن رات مصروف رہے کارکنوں کو منظم اور متحرک کرنے اور دیگرجماعتوں کے سیاسی کارکنوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہے ہوں،ن لیگ کا ووٹ خریدنے کا الزام محض سیاسی پراپیگنڈہ ہے کہ اسلم گل جاگیردار ہیں نہ سرمایہ دار،صنعت کے مالک ہیں نہ بڑے تاجر ہیں،اتنی بڑی تعدادمیں ان کیلئے ووٹوں کی خریداری ممکن ہی نہیں اور یہ بات ن لیگی قیادت بھی جانتی ہے کہ اسلم گل کوئی مالدار شخصیت نہیں مگر ایک جیالے اور سیاسی کارکن ہیں۔
آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے ضمنی الیکشن کو حوصلہ افزا قراردیا ہے،اور کہا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب کی حقیقی نمائندہ جماعت ہے،ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے امیدوار کے میدان میں نہ ہونیکا پیپلز پارٹی نے فائدہ اٹھایا اورحلقے میں بھر پور محنت کر کے بہترین نتائج حاصل کئے،مگراس بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں دوبارہ مضبوط ہو رہی ہے،تحریک انصاف کے امیدوارکے کاغذات مستردہونے سے جوخلاء پیدا ہواء تھااسے پیپلز پارٹی نے محنت اورذہانت سے پرکیا،لیکن یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب میں تحریک انصاف کی جگہ لے لی ہے،یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کو ن لیگ مخالف جماعتوں عوامی تحریک،تحریک لبیک،اور دیگر کاووٹ بھی ملا ہے،تمام تر تبصروں تجزیوں کے باوجودپیپلز پارٹی ایک نظریاتی جماعت ہے،جمہوریت کی قربانیاں کسی بھی سیاسی جماعت سے زیادہ ہیں۔
بھٹو کی پھانسی کے بعدبینظیر اورپارٹی پر ابتلاء اور آزمائش کاایک لمبااور کڑادورآیا،بے نظیر بھٹو کو حکومت ملی تو پنجاب میں نواز شریف کو انکے مقابل لاکھڑا کیا گیا،جنہوں نے وزیراعظم ہونے کے باوجود بینظیر کو پنجاب میں داخل نہ ہونے دیا،نواز شریف کو پورے ملک پر حکمرانی ملی سندھ بھی انکی جھولی ڈال دیا گیا،ن لیگ نے سیاسی مقدمات کے ذریعے بینظیر کیلئے سیاست تو دور کی بات ان کا ملک میں رہنا بھی دشوار کر دیا،آصف زرداری نے طویل جیل کاٹی جو ریکارڈ ہے،یہ وہ حالات تھے جن میں پیپلز پارٹی کیلئے پنجاب میں سیاست کرناممکن نہ رہا اوروہ پنجاب میں سکڑتی چلی گئی،مسلسل پنجاب پر حکومت کے بعد پنجاب میں ن لیگ کااثر ورسوخ بڑھتا چلا گیابعض لوگوں کے خیال میں ن لیگ اور پنجاب لازم و ملزوم ہو چکے ہیں،مگر میاں منظوروٹو نے صرف 81 ارکان کی مددسے یہ زعم توڑ دیا، چودھری پرویزالٰہی نے مشرف دور میں ثابت کیا کہ پنجاب پر کسی کااجارہ نہیں بلکہ جوکارکردگی دکھائے گا وہ پنجاب میں حق حکمرانی حاصل کر پائے گا،اسوقت بھی عثمان بزدار جیسا نوآموز سیاستدان معمولی اکثریت سے کامیابی کیساتھ ساڑھے تین سال سے حکومت کر رہا ہے ،جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاست میں کار کردگی کی بہت اہمیت ہے،اب جبکہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں ایک بار پھر اختلافات پھوٹ پڑے ہیں اور ن لیگ نے بھی فضل الرحمٰن کی اسمبلیوں سے استعفوں اوردھرنے کے معاملہ پر پیپلز پارٹی والا موقف اپنایا ہے تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آگئی ہے کہ آصف زرداری ہوشمند سیاست دان ہیں،صرف سیاست کے جادوگر ہی نہیں بلکہ مفاہمت اور مصالحت کے بھی بادشاہ ہیں وہ اتحادیوں ساتھیوں دوستوں ہی نہیں دشمنوں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کا ہنر جانتے ہیں،پی ڈی ایم کی تحریک کے عروج کے دور میں جب پارلیمنٹ سے استعفوں اور دھرنے کی بات ہوئی تو زرداری کا موقف اس کیخلاف تھا انہوں نے پہلے پنجاب میں عدم اعتماد لانے کی تجویزدی اور موقف اختیار کیا کہ استعفے حکومت کو ریلیف دینے کے مترادف ہو گا،حکومت خالی حلقوں میں الیکشن کرا کے مطلوبہ اکثریت حاصل کر کے مضبوط ہو جائے گی،حکومت کی اصل طاقت پنجاب ہے اورپنجاب اس سے چھین کر اسے کمزور کیا جاسکتا ہے،مگر تب نوازشریف فضل الرحمٰن کی زبان بولتے تھے،مگراب فضل الرحمٰن کے مطالبہ پرانہوں نے یہ کہہ کر لالی پاپ دیدیا کہ استعفے تو جیب میں پڑے ہیں جب مرضی دے دیں،ابھی لانگ مارچ تک محدودرہیں دھرنے کا بھی بعد میں سوچیں گے،جواس بات کا ثبوت ہے کہ ن لیگ شہباز شریف کامفاہمت اور مصالحت کا بیانیہ اپنا چکی ہے اور نوازشریف کا بیانیہ دفن ہو چکا،یہ بھی دراصل آصف زرداری کی جیت ہے،اس تناظر میں پیپلز پارٹی کی حالیہ کار کردگی کواتفاقی سمجھنا شائد درست نہ ہو۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محسن گورایہ کے کالمز
-
اعتماد سے عاری اپوزیشن
جمعرات 17 فروری 2022
-
ٹکے ٹوکری سیکرٹیریٹ
منگل 15 فروری 2022
-
مقامی حکومتیں ضروری ہیں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
’’آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک‘‘
منگل 8 فروری 2022
-
پنجاب ،بلدیاتی انتخابات اور گورننس؟
جمعرات 3 فروری 2022
-
چیف سیکرٹری پنجاب ؟
پیر 31 جنوری 2022
-
مقامی حکومتیں اور با اختیار بیوروکریسی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کی باتیں؟
پیر 24 جنوری 2022
محسن گورایہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.