شور اور شعور میں فرق،صرف عین کا

پیر 24 فروری 2020

Mrs Jamshaid Khakwani

مسز جمشید خاکوانی

کہتے ہیں شور اور شعور میں فرق صرف عین کا ہوتا ہے لگتا ہے یہ عین ،عمران کی ہے جب سے عمران خان وزیر اعظم بنا ہے عوامی شعور کو پر لگ گئے ہیں قوم ان چیزوں کا حساب بھی مانگنے لگی ہے جن کی عمران خان ابھی صرف فائلیں پڑھ رہا ہے کہ نقصان کتنا اور کہاں تک ہے یہاں تو ایک اورنج ٹرین ہی کافی ہے اس پر ہی بات کر لیتے ہیں 
یہ مالٹا ٹرین لاہور میں کس نے بنائی؟
جی شہباز شریف نے
کتنے کی ؟268ارب کی 
یہ پیسے کہاں سے آئے؟
جی قرضہ لیا
اور یہ قرضہ سود سمیت کون واپس کرے گا ؟
جی عمران خان 
کیسے کرے گا؟
جی عوام پر ٹیکس لگا کے
ٹیکس لگے گا تو کیا ہو گا ؟
جی مہنگائی ہوگی 
پھر کیا ہوگا؟لوگ عمران خان کو گالیاں دیں گے 
تحریک انصاف کے ووٹر ،سپورٹر مایوس ہونگے ،عوام بد دل ہوگی اور یوں ایک انقلابی تبدیلی کا علمبردار زمین بوس ہوگا اور اگلے الیکشن میں عوام میاں برادران اور آصف زرداری کے ساتھ ہو گی اور صدیوں تک اس ملک میں کرپشن اور ذلالت کا دور رہے گا ایمانداری گالی بن جائے گی اور لوگ عمران خان کی مثال دیں گے اور اگلے سو سال تک کسی انقلابی کو پر بھی نہیں مارنے دیں گے۔

(جاری ہے)

یہ مایوسی کی داستان ہے اور ہمیں اسی سے امید نکالنی ہے ” کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے “ اس مرض سے قوم کو بچنا ہوگا کیونکہ اس کے آگے صرف گہری کھائی ہے اور قبر جیسا اندھیرا،قوم کو سمجھنا ہوگا کہ جو قرضہ اس ملک پر چڑھایا گیا اس کا صرف سود دینے میں عمران خان کو آدھا بجٹ دینا پڑتا ہے حکومتیں عوام کے ٹیکس پر چلتی ہیں یہ جو موٹر وے ، مالٹا ٹرین ،میٹرو بنی ہیں یہ قرضہ لے کر بنائی گئی ہیں ،مشکل یہ ہے کہ قرضہ لینے والے لے گئے بڑے بڑے پراجیکٹ پر اپنی شکلیں لگا گئے قوم قرضہ بھول گئی پروجیکٹ یاد رہ گئے اور ذلالت کے لیے عمران خان رہ گیا جو بیرون ملک دوروں پر بھی جائے تو علیحدہ جہاز کروانے کی بجائے کمرشل فلائٹ سے جائے جس نے اپنے گھر کی دیوار کے لیے بھی قوم کی ایک چونی خرچ نہیں کی ،جس نے اربوں کا صوابدیدی فنڈ محض اس لیے نہ لیا کہ قومی خزانے کی کچھ بچت ہو جائے اس نے سات وزیر اعلی دس وزیر اعظم ہاؤس نہیں رکھے ،جس نے صرف اپنی مشہوری کے لیے نئے ٹی وی چینلوں کو چالیس ارب کے اشتہار نہیں دیے عمران خان کا قصور یہ ہے کہ اس ملک میں جہاں چالیس فیصد لوگ روٹی کھا کے نہیں سوتے تھے ان کے لیے لنگر خانے کھولتا ہے پناہ گاہیں بناتا ہے اس ملک کے قرضے اتارتا ہے تاکہ کوئی پاکستانیوں کو بے عزت نہ کرے وہ باہر کے ملکوں میں پاکی نہ بلائے جائیں ان کے پاسپورٹ کو نفرت سے نہ دیکھا جائے ان کے لیے ذلیل ہونا بڑے دل گردے کا کام ہے۔

لیکن بات وہی ہے کہ جب معاشرہ کے بدمعاش پڑھے لکھے لوگوں سے زیادہ کمائی کرنے لگیں تو ایسے میں کوئی تعلیم یا رزق حلال کا لیکچر دے اسے ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا عمران خان کو ہو رہا ہے کیونکہ پاکستان میں غریب روٹی نہیں چرا رہا بلکہ ہٹے کٹے کھاتے پیتے لوگ زمینیں جائیدادیں چرا رہے ہیں۔
 مجھے کوئی ایک بندہ بتا دو جس نے بھوک سے خود کشی کی ہو یہ مغرب نہیں ہے جہاں کسی بھوکے کو کھانا دینے کے لیے رات کو دروازہ نہیں کھولا جاتا یہاں تو لوگ رات کو بارہ بجے بھی دروازہ کھٹکھٹا کر کھانا مانگ لیتے ہیں میں نے خود کئی بار لوگوں کو کھانا یا پیسے دیے ہیں جو کہتے باجی آج مزدوری نہیں ملی کھانے کو دے دو، میرے میاں ناراض بھی ہوتے کہ کبھی کوئی چور ڈاکو بھی ہو سکتا ہے پھر بھی میں رسک لے لیتی ہوں کیا خبر کوئی سچ مچ بھوکا ہو رات کو نیند کیسے آئے گی اللہ کتنا ناراض ہوگا یہی سوچ عمران کو لنگر چلانے پر مجبور کر گئی چلو جب تک مکمل انتظام نہیں ہوتا عارضی انتظام ہی سہی ۔

جس شدت کی سردی پڑی ہے اس بار اگر یہ لنگر خانے یہ پناہ گاہیں نہ ہوتیں تو اچھی خاصی اموات ہو جاتیں اب لوگ لاکھ جھوٹ بولیں پرانی خبریں لگائیں لیکن جو سچ ہے وہ سچ ہے اللہ تو جانتا ہے نا ؟المیہ یہ ہے کہ جب حکمران ملک لوٹ لیتے ہیں پھر نچلا طبقہ بھی چوری چکاری کو اپنا حق سمجھتا ہے وہ بھی سوچتے ہیں محل نہ سہی ایک گھر تو اپنا بھی ہو رشوت سے بنے یا فراڈ سے ارے اگلا جہان کس نے دیکھا ہے ،بھول جاتے ہیں کہ اس حال کو پہنچانے والے پورا ملک ہی گروی رکھ گئے ہیں قوم کو کھوتا بنا گئے ہیں ۔

چنیوٹ سے لوہے تانبے اور سونے کے ذخائر نکلنے کی خوش خبری نواز شریف نے دی تھی اب وہ تصویر دیکھ کر ہنسی آرہی تھی کہ شور اور شعور میں کیا فرق ہوتا ہے لوگ اس وقت غور ہی نہیں کرتے تھے کہ نواز شریف لوہے کے پائپ ہاتھ میں اٹھائے کھڑے ہیں اور ان کے چیلے چانٹے ساتھ کھڑے مسکرا رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے تھے دنیا میں کہیں بھی لوہے کے ذخائر میں سے بنے بنائے پائپ نہیں نکلتے اور ہم لوگ کتنے بیوقوف ۔

۔۔۔ ابھی جھوٹے لینے کے چکر میں قوم کو اربوں کا چونا لگا دیا نہ اگلنے کے نہ نگلنے کے اتنے بڑے قرض سے بنی ٹرین یعنی اورنج لائن ٹرین کیا اسکول ،کالج ،یونیورسٹی اور ہسپتال کا کام دے سکتی ہے ؟یہ سفید ہاتھی ہے۔
وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے ٹویٹ کی کہ اگر اورنج لائن ٹرین کو ساٹھ روپے کی ٹکٹ پر بھی چلائیں تو صرف اس کے چلنے پر سالانہ دس ارب کی سبسڈی دینا ہو گی اور لاگت کا قرضہ الگ سے دینا ہے پنجاب کی چالیس فیصد بجلی کھائے گی وہ الگ ،چند دن پہلے وزیر اعلی کے ایک سابقہ ترجمان شہباز گل نے ایک پروگرام میں بتایا تھا کہ اگر اورنج لائن ٹرین کی ٹکٹ 285روپے بھی رکھیں تو ٹرین صرف اپنے اخراجات پورے کرے گی سود کی مد میں پھر بھی سالانہ چھ ارب دینا ہوگا ۔

وزیر اعلی نے سوال کیا ہم اس رقم سے اسکول کالج چلائیں یا ٹرین چلائیں اب کابینہ نے یہ فیصلہ عوامی نمائندوں پر چھوڑ دیا ہے ویسے اصولاً تو یہ فیصلہ عوام کو کرنا چاہے مالٹا ٹرین پر چند کلو میٹر کے جھوٹے کھانے ہیں یا صحت اور تعلیم پر خرچ کرنا ہے ؟ ماشا اللہ اب تو قوم کو اچھا خاصا شعور آ چکا ہے بات بات پہ حساب مانگتی ہے اس کا فیصلہ بھی کر لے کسی اور ملک میں ایسے ملک گروی رکھ کر بھاگے ہوئے ہوتے تو واپس لا کر لٹکا دیتے یہاں تو ایک بندے کے علاوہ سبھی گنوں کے پورے ہیں جن کے لوٹ مار کے منصوبے ابھی تک ادھورے ہیں نواز شریف جلسوں میں کیسے لوگوں کو الو بناتے تھے کہ خالی ہاتھ نہیں آیا بھئی جیبیں بھر کے لایا ہوں اور حالت یہ تھی جب قومی خزانہ خالی کر لیا وکیلوں کو دینے کے لیے پیسے نہیں تھے انہی فلیٹوں میں جا بسے جن کی ملکیت سے انکاری تھے جن کی زندگی کی ضمانتیں مانگی جا رہی تھیں تین مہینے ہو گئے ابھی تک علاج بھی شروع نہیں ہوا نہ کوئی مستند رپورٹ ملی ہے روز ملاقاتیں ہو رہی ہیں جوڑ توڑ ،کھابے شابے سب کچھ ہو رہا ہے۔

بس ایک علاج ہی نہیں ہورہا عزرائیل کی طرح عدالتیں بھی بھول چکی ہیں کہ ضمانتیں کب کی اوور ہو چکی ہیں بلکہ ضمانتی بھی فرار ہیں اشتہاری باہر بیٹھ کر اکانومی چلانے کے مشورے دے رہے ہیں ملک میں بیٹھے ان کے حمائتی کبھی آٹا چھپا لیتے ہیں کبھی چینی ،ٹماٹر چند دن چھپ سکتا تھا گلنے سڑنے لگا تو اب پانچ روپے کلو بھی دستیاب ہے ۔
نواز شریف اور زرداری کا جرم صرف کرپشن نہیں انہوں نے عوام کو صرف اپنی ذات کے اہم ہونے کے ٹرینڈ پر لگایا ہے آج ہر تاجر اور سرمایہ دار دس روپے کے فائدے کے لیے ریاست کو دس ہزار کا نقصان پہنچاتا ہے چنیوٹ کے ایک شہری کا میسج تھا کہ اورنج لائن ٹرین اور لاہور میٹرو میرے شہر چنیوٹ کا 400بیڈ پر مشتمل جدید ہسپتال اور سرگودھا فیصل آباد روڈ ڈبل ہونا بھی کھا گئی سرگودھا فیصل آباد روڈ ون وے نہ ہونے کی بنا پر ہر روز حادثات کا موجب بن رہا ہے چنیوٹ ،پنڈی بھٹیاں روڈ بالکل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے مگر ٹال ٹیکس دھڑا دھڑ وصول کیا جا رہا ہے چنیوٹ پاکستان کا واحد ضلع ہے جہاں تین شوگر ملز موجود ہیں ریت کی رائلٹی کی مد میں اربوں روپے کی آمدن ہے چنیوٹ کے ایم این اے اور ایم پی اے گذشتہ تین الیکشن سے نون لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوتے آرہے ہیں مگر چنیوٹ کی حالت نہیں بدلی کیوں ہمارا سارا پیسہ صرف لاہور شہر پر لگا دیا جاتا ہے ؟
قارئین سوال تو اور بھی بہت سے ہیں میرے پاس مگر بات پھر وہیں آجاتی ہے شور بڑا کہ شعور ؟سوچیئے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :