
ہم کب تک خود کو دھوکا دیں گے !
پیر 21 جون 2021

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
ہمارے سسٹم کی دوسری خرابی یہ ہے کہ ہمارے ہاں انتخابات ہوتے ہیں ،ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کے ذریعے حکومتیں بنتی ہیں اور اتحادیوں کو ساتھ ملانے کے لیئے وزارتیں بانٹ دی جاتی ہیں۔حکومتیں اتحادیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہتی ہیں اور انتظامیہ کا فوکس کام کی بجائے پانچ سال پورے کرنے پرہو جاتاہے ۔اتحادیوں کو راضی رکھنے کے لیے نااہلوں کو اختیارات بانٹ دیے جاتے ہیں، بی اے پاس کوتعلیم کا وزیر بنا دیا جاتا ہے ،میٹر ک پاس کو پی آئی اے کا محکمہ سونپ دیا جاتا ہے ، گاوٴں سے منتخب ہونے والے ایم این اے کو سائنس و ٹیکنالوجی کا وزیر بنا دیا جاتا ہے ،بیمار ایم این اے کو وزیر صحت بنادیا جاتا ہے ،جسے بولنے کی تہذیب نہیں ہوتی اسے وزیر اطلاعات و نشریا ت بنا دیا جاتا ہے اور جسے اقتصادیات کے مفہوم کا پتا نہیں ہوتا اسے خزانے کا وزیر لگا دیا جا تا ہے ۔در اصل ہم نے اس ملک کو سیاسی اکھاڑا سمجھ لیا ہے جس میں ہر پانچ سال بعد ایک نئی جماعت میدان میں اترتی ہے اور اس ملک اور عوام کا خون چوس کر نکل جاتی ہے ۔یہ ملک اپنے قیام کے دن سے ہی حکمرانوں کے لیئے سیاسی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے اور ہر نیا لیڈر اس تجربہ گاہ میں نت نئے تجربات کر رہا ہے ۔دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ایسا نہیں ہو تا ، ہر جانے والی حکومت نئی حکومت کو اپنی پالیسیوں ،ترقیاتی منصوبوں اور خارجہ پالیسی سے آگا ہ کر دیتی ہے اور یوں وہاں سسٹم کو دھچکا نہیں لگتا اور نظام پہلے کی طرح چلتا رہتا ہے ۔امریکہ ،برطانیہ،اٹلی ،جرمنی اور یورپ کے دیگر کئی ممالک میں تو اپوزیشن بھی باقاعدہ اپنی کابینہ تشکیل دیتی ہے جو ایک طرف حقیقی کابینہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھتی ہے اور دوسری طرف وہ خود سیکھ رہی ہوتی ہے کہ حقیقی کابینہ کے فرائض واختیارات کیاہیں ،حقیقی کابینہ کہاں غلطیاں کر رہی ہے اور اقتدار میں آکر ان غلطیوں سے کیسے بچنا ہے ،یہ ساری صورتحال ان ممالک کے سیاسی سسٹم کو مضبوط رکھتی ہے اور یوں وہاں حکومتوں کے آنے جانے سے کو ئی فرق نہیں پڑتا ۔
پچھلے ہفتے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جو ہوا اس نے سیاستدانوں کا اصل چہرہ عوام کے سامنے رکھ دیا ہے ، اگر کسی نے نہیں دیکھا تو یہ آپشن اب بھی موجود ہے ، یوٹیوب پر جائیں اور اپنے حلقے کے نمائندے کی اصلیت دیکھ لیں کہ جنہیں آپ نے اپنے مسائل کی نمائندگی کے لیے بھیجا تھا یہ مہان وہاں جا کر کیا گل کھلا رہے ہیں ۔ سیالکوٹ میں سینکڑوں اہل علم، پی ایچ ڈی ڈاکٹرز ، سماجی ماہرین ، علماء اور نوجوان ہوں گے جو اس ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہوں گے، جو اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہوں گے مگر قرعہ فال ایک بدنام سیاسی کردار کے نام نکلتا ہے اور اسے وزارت اطلاعات سونپ دی جاتی ہے۔کیا یہ سیالکوٹ کے ہزاروں لاکھوں پڑھے لکھے ، سویلائزڈ ، اہل علم، علماء، سماجی کارکنان اور نوجوانوں کے لیے باعث عار نہیں ۔ یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ کوئی بھی سیاستدان ایسا نہیں جس کے علاقے کے عوام اس پر رشک کر سکیں ۔ پچھلی حکومتوں کی طرح یہ حکومت بھی محض اپنے پانچ سال پورے کرنے کے چکر میں ہے ، سب اپنے مفادات اور پروٹوکول انجوائے کر رہے ہیں ۔ جیسے ہی پانچ سال پورے ہوں گے یہ شہد کی مکھیوں کی طرح عوام کا خون چوس کر اڑ جائیں گے اور یہ ملک وہیں کا وہیں کھڑا رہے گا ۔اب وقت آگیا ہے کہ اس ملک کے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا جائے، اس کے انتخابی نظام کی اصلاح کی جائے ، اسمبلیوں میں ہنگامے کرنے کی بجائے پڑھے لکھے، سویلائزڈ، ملک کا در درکھنے والے اہل علم ، علماء اور نوجوانوں کو آگے آنے کا موقعہ دیا جائے ۔یقین کریں جب تک ہم ان روایتی سیاستدانوں اور روایتی انتخابی سسٹم سے جان نہیں چھڑائیں گے ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے، ہم دائروں میں سفر کرتے رہیں گے اور خود کو دھوکا دیتے رہیں گے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.