نئے زمانے کے شیخ چلی

جمعرات 24 دسمبر 2020

Muhammad Kamran Khakhi

محمد کامران کھاکھی

شیخ چلی کی شخصیت سے کون واقف نہیں۔ہم سب نے اسکی کہانی پڑھ رکھی ہے کہ کیسے اس نے اہلیت نہ ہونے کے باوجود ایسے خواب دیکھے جو اس کی پہنچ سے دور تھے مگر وہ ان کو حاصل کرنے میں اس قدر پر اعتماد تھا کہ اس نے اپنا نقصان ہی کر ڈالا یعنی انڈوں کی ٹوکری گرا کر تمام انڈے ہی توڑ ڈالے۔ یہی حال کچھ اس وقت حاکم وقت کا ہے کہ تقریبا چھ فی صد کی شرح ترقی اس کو بہت کم لگی اور اس نے ملک کو سو فی صد ترقی یافتہ بنانے کی سوچی مگر وہ منفی اعشاریہ چار پہ دھڑام سے جا گری۔

پھر بھینسوں ،کٹوں،مرغیوں ،انڈوں سے اس کو سہارا دینے کی سوجھی تو مرغیوں نے ہڑتال کر دی اور انڈوں کی قیمت دوگنا بڑھ گئی۔پھر غریب عوام کا خیال دل میں سما ء گیا اور ان کے لیے کچھ کرنے کی سوجھی اور تاریخ میں پہلی دفعہ غریب لوگوں کے لیے لنگر خانے کھول دیے  اب اس سے زیادہ کسی حکمران کو غریب کا خیال کیسے ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

مگر ان لنگر خانوں میں کھانا پکنے اور غریب کا پیٹ بھرنے سے جناب آٹا اور چینی صاحب غصہ کر گئے اور ان کی قیمتی آسمان کو چھونے لگیں۔

غریب تو غریب ان  اجناس ضروریہ کی بے رخی سے تو سفید پوش بھی بلبلا اٹھے۔
مگر حاکم وقت کو اپنی عوام سے بہت پیا رہے۔ جانتے نہیں کہ انہوں نے کھیل کود سے جو بھی کمایا اس سے خود عیاشی نہیں کی بلکہ درد دل رکھنے کی وجہ سے غریب عوام کے لیے کینسر کا ہسپتال بنایا۔آمدنی کم ہونے کی وجہ سے در بدر ٹھوکریں کھا کر پیسہ جوڑا مگر غریبوں کے لیے ہسپتال بنا کر چھوڑا۔

اس ہمدردانہ کام پر بھی کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھا اور انہوں نے ان پر فارن فنڈنگ کیس کر دیا کہ جی بیرون ملک سے ناجائز طریقہ سے پیسے لیے گئے۔بھئی پیسے لیے تو اپنے ملک میں لائے نا کوئی باہر تو نہیں لے گئے، کوئی منی لانڈرنگ تو نہیں کی نا اور پھر اچھے کاموں کے لیے ہی استعمال ہوئے نا۔ تبدیلی لانے کے لیے کتنی محنت درکار ہوتی ہے ان نااہل لوگوں کو کیا پتہ۔


 پھر ماحولیات کی آلودگی سے جہاں عام آدمی کا دم گھٹ رہا تھا تو حاکم وقت کہاں آرام سے بیٹھ سکتا تھا۔ اس نے ملین ٹری سونامی شروع کر دیا اور درخت لگانے شروع کردیے تاکہ ماحول کو آلودگی سے پاک اور خوشگوار بنایا جاسکے۔اس کے اور بھی کئی فوائد ہیں جیسے فضا ء میں آکسیجن  کی پیداوار میں اضافہ ، جنگلی حیات میں اضافہ کیونکہ چڑیا گھروں میں ان جانوروں کی جان ہی خطرے سے دو چار ہے ،اسی لیے تو کاون کو دیس نکالا ملا ۔

اب اگر جنگل ہوتے تو کیوں ہم کاون کو کسی دوسرے ملک کے حوالے کرتے بھلا بلکہ اس کے ساتھیوں کو اپنے ملک میں لاتے نا۔ اتنی سی بات پتہ نہیں لوگوں کو سمجھ کیوں نہیں آتی۔اور سب سے اہم فائدہ اس جنگل سے  حاصل ہونے والے شہد کی پیداوار ہے۔اب بھلا اس نیک کام سےدشمنوں کو آرام کہاں سے آنا تھا تو انہوں نے اس پر اعتراض لگانے شروع کر دیے کہ درخت تو لگے ہی نہیں اور اگر لگے ہیں تو سو لگا کے ہزار کا خرچہ ڈالا گیا اور تو اور یہ تو انہوں نے حد ہی کر دی کہ  جو شہد  ان درختوں سےحاصل ہوگا اس کا برانڈ نیم گنڈاپوری شہد ہوگا۔

 
عوام کی بھوک اور غربت کے خیال نے حاکم وقت کو بہت تڑپایا کہ کوئی بھی سکیم کارگر ثابت نہیں ہو رہی تو بھنگ کی کاشت کا سوچا کہ اس کی پوری دنیا میں بہت مانگ ہے اور اس سے کئی ادویا ت تیار ہو رہی ہیں مگر دشمنوں نے اس کا بھی مذاق بنا لیا۔پھر سونے پہ سہاگہ غربت میں ڈوبی اس قوم کو کورونا نے آ پکڑا۔ کہتے ہیں نہ کہ مصیبت کبھی اکیلی نہیں آتی اپنے ساتھ بربادی بھی لاتی ہے تو مصیبت تو اس قوم پہ آئی سو آئی ساتھ میں بربادی بھی لائی اور اب ساری قوم غم وغصہ سے بپھری اپنے ہی بال  نوچ رہی ہے سوائے حکومتی معاون کاروں کے کہ ان کے لیے تو سب اچھا ہے۔

پھر بھی حاکم وقت نے ہمت نہیں ہاری اور وقفے وقفے سے قوم کے دکھ درد کا مداوا اپنی کچھ بیوقوفانہ حرکتوں، بڑھکوں،دعووں اور سہانے خوابوں کے ذریعے کرتے رہتے ہیں اور اپنے ترجمانوں کو بھی سختی سے تلقین کر دی کہ سب اچھا ہے،لوگوں کو بھی بتاو۔ اور ان کے وفادارعوام  اب بھی یہ یقین رکھتے ہیں اس حاکم وقت سے بڑھ کر اور کوئی مسیحا ہے ہی نہیں ،اس لیے قدر کرو اسکی۔


ملک کی غریب عوام حکمرانوں کے لیے گئے قرض کے بوجھ تلے دب چکی تھی جس کی وجہ سے حاکم وقت اقتدار میں آنے سے پہلے بھی گھلتے رہے اور اقتدار میں آکر بھی انہیں ان قرضوں کا بہت زیادہ احسا س تھا کہ ملک کی عوام بہت زیادہ مقروض ہے اس لیے صرف دو سالوںمیں چودہ  ہزار ارب کے مزید قرض لے کر انہوں ان قرضوں سے نجات کی تاریخ میں پہلی دفعہ کوشش کی جو کہ ان کی نیک نیتی کا ثبوت ہے۔

اپنی اس کوشش کے لیے انہیں کیا کیا جتن نہیں کرنے پڑے کہ ملکوں ملک جا کر ان غریبوں کی وجہ سے مانگنا بھی پڑا اور آئی۔ایم۔ایف نے تو حد کردی کہ قرض دینے کے لیے انہوں مہنگائی بھی کرا ڈالی مگر ہمارے حاکم وقت نے ہمت نہیں ہاری اور ان کی ہر خواہش پوری کی باوجود اس کے ان کی شرائط ان کے کہنے سے پہلے ہی  گئی گنا زیادہ پوری ہو چکی تھیں۔
حاکم وقت کا  غریب عوام کے احساس ہی تو تھا کہ انہوں نے ملک "احساس پروگرام" شروع کیا اور غریب عوام کو گھر بیٹھے پیسے دیے جو کہ تاریخ میں پہلی بار ہوا مگر دشمنوں نے اس پر بھی بے پر کی اڑا دی کہ بے نظیر انکم پروگرام کا پیسہ نام بدل کے بانٹا جا رہا ہے۔

اب یہ بھی کوئی بات ہوئی بھلا مطلب غریب کا احساس بھی نہیں کرنے دیتے یہ لوگ۔اب دیکھو نا عام آدمی کی صحت کے لیے حکومت نے انصاف صحت کارڈ دیے تو الزام لگا دیا کہ یہ تو پہلے ہی عوام میں نواز شریف ہیلتھ کارڈ  کے نام سے ملے پروگرام کو بدل کے شروع کیا گیا منصوبہ ہے۔  
آج سے کوئی چار پانچ سال پہلے ایک ریسرچ کافی مقبول ہوئی جسے "ڈننگ کروگر ایفیکٹ " کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ڈننگ کروگر اثر اس وقت پایا جاتا ہے جب افراد اپنی ذاتی اہلیت کی سطح کا صحیح طریقے سے تجزیہ نہیں کرتے ہیں۔ یہ ایک علمی تعصب ہے جس میں نااہل افراد  اپنے آپ کو سب سے زیادہ اہل تصور کرتے ہیں۔اس کے برعکس "امپوسٹر سنڈروم "ہے جو بہت قابل افراد کے خیال میں ہوتا ہے کہ وہ دوسروں سے کم مجاز ہیں۔یعنی علم والا اپنے آپ کو کم علم تصور کرتا ہے جیسا کہ مشہور زمانہ سائنسدان آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ " میں جتنا سیکھتا جاتا ہوں اتنا ہی مجھے اپنی کم علمی کا احساس ہوتا جاتا ہے"۔


 ڈننگ۔ کروگر اثر کی عام مثال سیاستدان اور مشہور شخصیات ہیں جو کسی بھی موضوع  کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے باوجود  اس کے بارے میں جرات مندانہ غلط دعوے کرتے ہیں اور پھر اس کو صحیح ثابت کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان میں خود اعتمادی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ چارلس ڈارون نے ایک بار کہا تھا "لاعلمی اکثر علم سے زیادہ اعتماد پیدا کرتی ہے۔

"
ڈننگ کروگر کی فالو اپ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ جو عملی طور پر کچھ نہیں کر سکتا ، وہ  تنقیدبھی قبول نہیں کرتا اور  وہ اپنی خود کی بہتری میں دلچسپی ظاہر کرنے کا کم سے کم امکان رکھتے ہیں۔
یہی حال ہمارے اس وقت کے حکمرانوں کا ہے کہ اہل لوگوں کے مقابلے میں خود کو ہی بہت زیادہ اہل تصور کرتے نظر آتے ہیں اسی کا عملی مظاہرہ ایک وزیر موصوف  نے یہ کہ کر کیا کہ 'ہم عالموں سے بہتر اسلام  کو سمجھ سکتے ہیں۔

"مدینہ کی ریاست کے دعوے دار شاید ریاست کا علم تو رکھتے ہوں مگر مدینہ کے "م" سے بھی ناآشنا لگتے ہیں۔یہ نئے زمانے کے شیخ چلی اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی اہلیت نہ رکھتے ہوئے ملک کو تجربات کی آماجگاہ بنائے ہوئے ہیں ، ناقدین پابند سلاسل ہو جاتے ہیں ، عقلمند لوگ خاموش تماشائی ہیں اور عوام ان کے ہر تجربہ پہ قہقہ لگاتے ہیں نتائج پہ رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے اپنے روزگار کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :