سرائیکی ثقافتی دن

بدھ 10 مارچ 2021

Muhammad Kamran Khakhi

محمد کامران کھاکھی

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں جو زبانیں سب سے زیادہ بولی جاتی ہیں ان میں  سے ایک پنجابی اور دوسری سرائیکی ہے پنجاب کے علاوہ صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بھی کافی تعداد میں سرائیکی بولنے والے خاندان رہائیش پذیر ہیں۔بلکہ خیبر پختونخواہ کے دو اضلاع، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں 70 فی صد سرائیکی بولنے والے افراد ہیں۔

اس کے علاوہ پنجاب میں 24 اضلاع ایسے ہیں جہاں سرائیکی بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ان میں ملتان، جھنگ، اوکاڑہ، لودھراں، خوشاب، بھکر ، وہاڑی، بہاولپور، بہاول نگر، رحیم یار خان،ڈیرہ غازیخان، لیہ، مظفر گڑھ، راجن پور، پاک پتن، چنیوٹ اور وزیر اعظم پاکستان کا آبائی علاقہ میانوالی بھی شامل ہیں۔ ان سرائیکی بولنے والوں کا دیرینہ مطالبہ ایک الگ صوبہ ہے تاکہ ان کی محرومیوں کاازالہ ہو سکے اور اس کے لیے کافی عرصہ سے جدوجہد جاری ہے اگرچہ اس میں شدت نہیں کیونکہ سرائیکی  علاقے کے لوگ امن پسند اور کاشتکار ہیں اس لیے سادہ پن ان کی فطرت ہے اپنا حق دوسروں کو کھاتے ہوئے چپ چاپ دیکھتے ہیں اور پھر سے اسی محنت اورلگن سے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں۔

(جاری ہے)


ان سرائیکی بولنے والوں میں ہر ذات ، برادری، قوم  کے لوگ شامل ہیں اور آپس میں ہمیشہ شیروشکر ہو کر رہے ہیں کبھی باہمی فسادات تو دور بلکہ یہ ایکدوسرے کو ہمیشہ سے سپورٹ کرتے آئے ہیں چاہے وہ پٹھان ہو، بلوچ ہو، جٹ ہو، راجپوت ہو ، گجر ہو یا کوئی بھی برادری سے تعلق رکھتا ہو کبھی اسے اس بنیاد پر نشانہ نہیں بنایا جاتا بلکہ وہ سب سرائیکی بولنے اور سرائیکی کہلانے میں ایک ہو جاتے ہیں اور اگر ایک نہیں ہوتے تو اپنے حق کے مطالبہ کے لیے ایک نہیں ہوتے  یہی ان کی کمزوری ہے اور یہی ان کی محرومی کی وجہ بھی ہے۔


2012ء میں پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اور صوبائی سطح پر ایک نیا صوبہ بنانے کی قراداد پاس کی اور اس میں پاکستان مسلم لیگ نے بھی ان کا ساتھ دیا مگر 2013ء کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی سرائیکی علاقوں سے  قومی اسمبلی کی صرف ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوسکی جس کی وجہ سے صوبہ بننے کا عمل بھی رک گیا۔ پھر پاکستان تحریک انصاف نے سرائیکیوں کو نیا صوبہ بنا کر دینے کا وعدہ کیا اور وہ بھی حکومت آنے کے سو دن کے اندر   اندر،جس کا سرائیکی لوگوں نے خیر مقدم کیا اور 2018ء کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف نے سرائیکی علاقوں سے 50 میں سے 30 نشستیں جیت لیں اور یہی ان کی پنجاب میں اکثریت کا باعث بھی بنیں۔


اب تک پاکستان تحریک انصاف ملتان ، ڈیرہ غازیخان اور بہاولپور کے اضلاع کے لیے ایک سیکریٹریٹ قائم کرسکی ہے۔پہلے سودن تو گزر گئے بلکہ اب تو پورے تین سال ہونے کو آگئے مگر صوبہ بننے کا خواب ابھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔حکومت نے 2 مارچ کو بلوچ کلچر ڈے تو سرکاری سطح پر شایان شان طریقے سے منایا  جو کہ  بلاشبہ خوش آئند ہےکیونکہ ثقافت  ہماری پہچان ہے اور سے زندہ رکھنا چاہیے مگر کیا 6 مارچ جوکہ تقریبا پچھلی ایک صدی سے سرائیکی کلچر ڈے کے طور پر منایا جاتا رہا ہے حکومت اسے بھی سرکاری سطح پر منانے کا اعلان کرے گی؟ باوجود اس کے کہ صوبہ بھر میں سرائیکی  لوگ تعداد میں تقریبا چار کروڑ کے لگ بھگ  ہیں او ر ان میں بلوچ بھی شامل ہیں ، ان میں خود وزیر اعلی بھی شامل ہیں اور کئی کابینہ ارکان بھی شامل ہیں۔

تو کیا سرائیکی ثقافت کی ترویج کے لیے سرائیکی ثقافتی دن بھی سرکاری سطح پر منایا جائے گا  یا صرف سوشل میڈیا پر مبارکبادیں ہی دی جائیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :