ابراہیم معاہدہ اور دوہرا معیار

جمعہ 25 ستمبر 2020

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

یوسف ال عتبہ متحدہ عرب امارات  کے امریکہ میں سفیر ہیں۔اور یہ متحدہ عرب امارات  کے ریاستی وزیر بھی ہیں۔متحدہ عرب امارات کے سربراہ خلیفہ بن زاہد النہیان سے ال عتبہ کے بہت گہرے اور قریبی تعلقات ہیں۔بن زاہد النہیان جو شیخ زاہد بن سلطان کے بیٹے ہیں۔جنھوں 1971ء میں متحدہ عرب امارات کو باقاعدہ آزادی دلوائی تھی اور اسے ترقی کی راہوں پر گامزن کیا تھا۔

یعنی ال عتبہ محض سفیر نہیں بلکہ یواےای کے بہت اہم اور مرکزی راہنما ہیں۔ال عتبہ کا 12 جون 2020 کو اسرائیل کے سب سے سب سے بڑے اخبار "یالموت" میں ایک آرٹیکل شائع ہوا،یہ اخبار عبرانی زبان میں تل ابیب سے چھپتا ہے۔اس آرٹیکل میں ال عتبہ نے اسرائیل عوام سے دراخوست کی،"آپ وزیراعظم نیتن یاو کا فلسطین کے علاقوں پر قبضے کرنے کے منصوبہ کو مسترد کر دیں،کیونکہ عرب دنیا میں اس کا بہت سخت رد عمل آئے گا۔

(جاری ہے)

اور اب ویسے بھی عرب دنیا اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کےلئے تیار بیٹھی ہے۔اور اگر ان علاقوں کو اسرائیل قبضے میں کر لیتا ہے تو عوامی دباو کی وجہ سے عرب دنیا بالخصوص جی سی سی کے رکن ممالک سعودی عرب،قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات اور کویت کےلئے اسرائیل سے تعلق قائم کرنا ناممکن ہو جائے گا۔"ال عتبہ کا یہ آرٹیکل گوگل پر بھی موجود ہے۔

اور ان کا اس حوالے سے یوٹیوب پر کلپ بھی دستیاب ہے،جس میں وہ  اسرائیلی عوام سے دراخوست کرتے نظر آئے ہیں۔ان کا آرٹیکل میری نظر سے بھی گزرا ہے۔ال عتبہ کا یہ آرٹیکل جیسے ہی شائع ہوا،مشرق وسطی کے سیاسی اور عسکری حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین اور دانشوروں  نے اس بات کی پیش گوئی کر دی کہ جلد متحدہ عرب امارات  اسرائیل سے تعلقات قائم کر لے گا۔

اور ایسا ہی ہوا،13 اگست کو متحدہ عرب امارات  نے باقاعدہ طور پر اسرائیل کے ساتھ سفارتی،سیاسی اور عسکری  تعلقات استوار کرنے کا اعلان کردیا ہے۔اس حوالے سے امریکہ، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ایک معاہدہ بھی ہوا ہے،جسے "ابراہام اکارڈ" کا نام دیا گیا ہے۔اس معاہدے کی رو سے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل  کاروباری،سیاحتی،سائنسی اور عسکری تعلقات میں باہمی تعاون بڑھائیں گے۔

اب بدقستمی اور متحدہ عرب امارات کئ ذاتی مفادات کی انتہا ملاحظہ کیجئے،یوسف ال عتبہ سے مضمون لکھوایا جاتا ہے، اور پھر اسے اسرائیل حکومت کے منصوبہ کے بظاہر خلاف اسرائیلی اخبار میں شائع بھی کروایا دیا جاتا ہے۔اور عتبہ سے مطالبہ کروایا جاتا ہے،آپ اسرائیلی عوام سے دراخوست کریں،وہ اپنی حکومت سے مطالبہ کرے، کہ وہ فلسطینی علاقوں کو چھیننے اور ان کی جغرافیائی حدود پر قبضہ کرنے کے  منصوبے کو مواخر کر دے، تاکہ ناصرف عرب دنیا اسرائیل سے تعلقات قائم کر لے بلکہ علاقائی انتہاپسندی اور ایرانی بلاک کے خلاف مشترکہ فوجی تنظم سازی بھی عمل میں لائی جا سکے۔

کس قدر مسلم دنیا کو تقسیم اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔امریکہ اور اسرائیل چاہتے ہیں کہ پراکسیز میں ایران اور سعودی عرب سمیت دیگر عرب دنیا ایک دوسرے سے گتم گتھا رہے،تاکہ اسرائیل کے خلاف یہ کوئی باقاعدہ جنگ نہ کر سکیں اور "گریٹر اسرائیل"  کا خواب پورا کیا جا سکے،جس میں مکہ اور مدینہ کے سوا سعودی عرب مصر،عراق،شام،اردن اور عمان کے علاقے شامل ہیں۔

اسرائیل اور امریکہ ہر لحاظ سے ایران کو کمزور سے کمزور تر کرنا چاہتے ہیں،کیونکہ ایران ہی وہ واحد ملک ہے،جو عملی طور پر اسرائیل کے خلاف نہ صرف کروائی کرتا ہے بلکہ اسرائیل کےلیے خطرہ بھی ہے۔اب دوسری طرف آپ غیر سنجیدگی اور بےضمیری کی انہتا دیکھئے،اس معاہدہ کو ' ابراہام اکارڈ' کا نام دیا گیا ہے۔کیونکہ مسلم،یہودی اور عیسائی دنیا متفقہ طور پر ابراہیم علیہ السلام کو مانتے ہیں،اس حوالے سے یہ نام تجویز کیا گیا ہے۔

تاکہ مذہبی ہم آہنگی کو پروان چڑھایا جاسکے۔ایک طرف اسرائیل فلسطینی عوام پر ظلم کے پہاڑ گرا رہا ہے۔دوسری طرف امریکہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ مسلمانوں کو بے گناہ مار رہا ہے۔سنہری ملک لیبیا کو خون میں نہلا دیا گیا،مشرق وسطی کے پیرس،بیروت لبنان کو خانہ جنگی میں دھکیل دیا گیا،شامی،روہینگیا اور کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔

اس سارے کھیل میں امریکی و اسرائیلی مفادات چھپے ہیں۔اور متحدہ عرب امارات  ابراہم معاہدہ،کر رہا ہے تاکہ مذہبی ہم اہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔اور دوسری طرف یہ بھی معاہدہ میں شامل ہے، کہ شیعہ مسلمانوں بالخصوص ایران کے خلاف عسکری بلاک بنایا جائے گا،تاکہ ایران کو علاقائی اثرورسوخ قائم کرنے کا موقعہ نہ مل سکے۔کم ازکم میرے لیے یہ صورت حال عجیب تر ہے۔

جہاں تک مجھے سمجھ آتی ہے۔اس وقت دنیا کو کسی مذہب سے زیادہ معاشی ترقی عزیز تر ہے۔کوئی مظالم ڈھائے،انسانی حقوق مٹی تلے روندے جائیں،بس ان کو معاشی ترقی چاہئے۔اور خاص طور پر عرب ممالک تو معاشیات میں اندھے ہو چکے ہیں۔کچھ کو سیکولر کا تو کچھ کو معاشی ترقی اور جدت کا نعرہ ملا ہوا ہے اور اس کے بل بوتے پر وہ معاشی ترقی،جی ڈی پی بڑھا رہے ہیں، چاہے وہ بےحیاہی کے اڈے کھول کے ہو،شراب خانے کھول کر، یا پھر سیاسی و عسکری مفادات کی خاطر فرقہ واریت کو ہوا دینا ہو،یہ ممالک پیش پیش ہوتے ہیں۔

معاشی ترقی کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی اور سالمیت کےلئے ضروری ہوتی ہے۔لیکن یہ ترقی کسی مظلوم کی لاشوں سے گزر کر نہ کی گئی ہو۔انسانی حقوق سے کہلواڑ کرکے کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ظالم کا دوست  بھی ظالم ہوتا ہے۔اسرائیل سے تعلقات قائم کیے جاتے،لیکن جب فلسطینوں پر مسلسل ظلم ڈھائے جارہے ہیں اور اسرائیل توسیع پسندی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے،تو اس صورت میں تعلقات خوش آئند بات نہیں ہے۔

تمام عرب ممالک اگر اک بار بھی سنجیدگی سے مسئلہ فلسطین پر توجہ دیتے اور اتفاق سے کوئی لائحہ عمل بناتے تو یہ مسئلہ آج حل ہو گیا ہوتا۔لیکن یہ سنجیدہ ہی نہیں ہیں۔ہر ملک کو اپنے ذاتی مفاد عزیز تر ہیں۔وہ مسلمان کی اخوت اور چبھے کاٹنا کابل میں تو ہندوستان کا پیروجوان بےتاب ہونے والے اشعار، صرف کتابوں میں گم ہو کے رہ گئے ہیں۔عملا ایسا جذبہ خال خال ہی نظر آتا ہے۔

اسلامی ریاست کا نقطہ نظر اور اساس جی ڈی پی  نہیں بلکہ دین اسلام اور روحانیت ہوتی ہے۔مسلم دنیا کو واضح کرنا ہو گا یا تو ترکی کی طرح اسلامی ریاست کہلوانا چھوڑ دیں یا پھر اسلامی قوانین کی پاسداری کریں۔دوہرا معیار ناقابل قبول ہے۔اور اسی معیار کی وجہ سے آج مسلمان کشمیر،فلسطین،شام،برما،لبنان،لیبیا سے لے کر چینی صوبہ سنگیانگ تک ذلیل وخوار ہو رہے ہیں۔

یاتو مکمل طور پر سیکولر ہو جائیں اور اس نظریے کو مان لیں کہ ریاست میں مذہب کا کردار نہیں ہوتا،ریاست سب کےلئے برابر ہوتئ ہے۔یا پھر اسلامی قوانین کے نفاذ کو یقینی بنائیں اور یہ دوہرا معیار ختم کر دیں۔ایک طرف ابراہیم معاہدہ بین المذاہب میں ہم آہنگی پیدا کرنے کےلئے کیا گیا ہے۔تو دوسری طرف اسلامی ملک ایران کے خلاف عسکری بلاک بنایا جا رہا ہے۔یہ کھلا تضاد اور بھونڈا مذاق ہے۔دوہرا معیار معاشروں اور ملک کو تباہ کر دیتا ہے۔اس پر تمام ممالک کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ضروری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :