مایوسیوں کی آسیب زدہ قوم

جمعرات 9 مئی 2019

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

سانحہ داتادربار ہوا۔ بریکنگ نیوز آن ایئر ہوئیں۔، میڈیاپر کچھ دیر شور وغل رہا۔ سوشل میڈیاپرجائے وقوعہ اور شہدا کی تصاویر وائرل رہیں۔ آئی جی پنجاب عارف نواز خان فوری طورپر جائے وقوعہ پر پہنچے۔ اُن کی طرف سے جام شہادت نوش کرنے والے ایلیٹ پولیس کے چار نوجوانوں شاہد نذیر، محمد سہیل ،گلزار احمد اور محمد سلیم کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔

جذبہ ایمان رکھنے والے چند پولیس افسران افسردہ بھی ہوئے۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ڈیرہ غازیخان عاطف نذیر نے سوشل میڈیاپر لکھا ”وطن جیت گیا ، ماں ہا ر گئی“ایک پولیس نوجوان نے لکھا ”آج پھروردی والوں نے عام شہریوں پر برسنے والا بارود اپنے سینوں پر جھیلا “۔ نجی ٹی وی پر جائے وقوعہ پر کھڑا ایک عینی شاہد ٹریفک وارڈن کہا رہا تھا مجھے افسوس ہے کہ میں کیوں شہید نہ ہوا۔

(جاری ہے)


 دوسری جانب اِس سانحہ پر حکمرانوں اور سرکاری افسران نے روایتی بیان جاری کیے۔ چند گھنٹوں بعد ہی قوم یہ سانحہ بھول گئی ۔ دس افراد اِس خود کش حملہ میں شہید ہوگئے مگر قوم کی روایتی بے حسی ختم نہ ہوئی۔ کچھ دیر بعد ہی میڈیا پر ناچ گانوں پر مبنی اشتہارات چلنے شروع ہوگئے۔ دانشوروں کے سیاست پر ٹاک شو بھی حسب معمول زور شور سے ہوئے۔معاشرتی بے حسی کی اس قدر انتہاہو گی کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

قوم بے حس ہو چکی ہے یا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے ؟
 اِس بے حس قوم کی خاطر تمام فورسز کے نوجوان شہادتیں پیش کر رہے ہیں۔ فورسز کے نوجوان نغمہ گاتے پھر رہے ہیں کہ” کبھی پرچم میں لپٹے ہیں کبھی ہم غازی ہوتے ہیں، جو ہو جاتی ہے ماں راضی ، تو بیٹے راضی ہو جاتے ہیں“۔مگر صد افسوس لوگوں کے ذ ہنوں پر لگے گرہن نے معاشرتی بے حسی کو پروان چڑھا رکھا ہے۔

قوم کواحسا س نہیں کہ شہادت دینے والے اُن کی خاطر اپنی زندگی کھو بیٹھے ہیں۔
اِس سانحہ سے ایک رات قبل کرپشن میں سزا یافتہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو جس انداز میں جیل واپس پہنچایا گیا۔ وہ انداز مہذب قوموں اور باشعور ذہنوں کا عکاس نہ تھا۔ جیل کی جانب رواں قافلے میں مسلم لیگی کارکنان میاں نواز شریف کو سیاسی قید قرار دیتے رہے۔

موجودہ حکومت کے ترجمان میڈیا پر میاں نواز شریف کو کرپشن زدہ اور سزا یافتہ مجرم کہتے رہے۔
72سالوں سے اقتدار کی خاطرسجائے گئے اِس پتلی تماشہ کے تھیڑ نے پوری قوم کو اب بے حس اور ذہنی طورپر معذور بنا دیا ہے۔قوم کا احتساب ، قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے نعروں، ملک میں قانون کی حکمرانی کا راج ہو گا۔ عدالتیں شہریوں کو سستا اور فوری انصاف فراہم کریں گی۔

امیر غریب کے بچوں کے لیے یکساں نظام تعلیم ہوگا۔ ملک بھر کے ہسپتالوں میں غریبوں کو مفت ادویات اور علاج معالجہ کی سہولیات فراہم ہوں گی۔ فکر معاش سے لوگوں سے نجات مل جائے گی ۔ ملک میں ہر غریب کو چھت میسر آجائے گی۔ اِن سب کھوکھلے نعروں کی گردان سُن سُن کر قوم تنگ آچکی ہے۔ اِس قدر جھوٹ بولے گئے ہیں کہ اب قوم کسی بھی حکمران جماعت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔

اب سیاسی قیدی اور سزا یافتہ مجر م میں فرق ختم ہو گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک سزا یافتہ مجرم گلاب کی پتیوں میں سج کر اپنی سزا پوری کرنے واپس جیل جائے یا اُن کی خاطر کوئی نوجوان خون میں نہا کر جام شہادت نوش کرئے ۔ کوئی تمیز باقی نہیں رہی۔ سزا یافتہ مجر م پر بھی پھول کی پتیاں نچھاور کی جا رہی ہیں اور شہداکے جنازوں اور قبروں پر بھی پھول کی پتیاں نچھاور کی جار ہی ہیں۔


پاکستان تحریک انصاف نے قوم کو جو سبز باغ دکھائے تھے وہ دشت زدہ ہو گئے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن اورپیپلز پارٹی دو دو مرتبہ اِس قوم کو بے وقوف بنا چکی ہیں۔ ہر بار قوم نے ہر سیاسی جماعت کے شعبدہ باز لیڈر پر اعتبار کیا اور اُس کو اپنا نجات دہندہ تصور کیا۔ کبھی قوم کو ” روٹی کپڑا اور مکان“ کے نعرے پر بے وقوف بنایا گیا تو کبھی” قرض اُتار و ملک سنوارو“ مہم کے نام پر لوٹا گیا۔


 اس مرتبہ موجودہ حکمرانوں نے قوم کو انصاف اور تبدیلی کے نام پر بے وقوف بنایا ہے۔ حقیقی تبدیلی کے دعوے دار اب خود پریشان ہیں کہ وہ کریں تو کیا کریں۔ موجودہ حکومت کے پاس نہ ٹیم ہے اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی۔ آٹھ ماہ حکومت کو قائم ہو ئے بیت چکے ہیں ابھی تک اُن کو وہ راہ نہیں مل سکی جو انہیں اِ ن کی منزل کا پتہ بتائے ۔ ہر روز ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ پنجاب سردارعثمان خان بزدار کی تبدیلی کی خبریں میڈیاپر گردش کرتی رہتی ہیں۔

اسد عمر کو پہلے نااہل قرار دے کر انہیں وفاقی کابینہ سے نکالا جاتا ہے پھر اُسی نااہل شخص کو دوبارہ چیرمین قائمہ کمیٹی برائے خزانہ بنانے کی منظوری دی جاتی ہے۔
 مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ قوم کے پہلے سے ہی آزمودہ ہیں۔ گذشتہ سترہ سال سے آئی ایم ایف کے ساتھ منسلک ڈاکٹر رضا باقر کو گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور چارٹرڈ اکاوئٹنٹ شبر زیدی کو نیا چیئرمین ایف بی آر مقر ر کیا گیا ہے۔

اِن حکومتی فیصلوں پر تنقید کا ایسا سلسلہ شروع ہو ا ہے کہ قوم کے سنجید ہ طبقے بھی حیران و پریشان ہیں کہ آخر اِس ملک میں یہ سب کیا ہے اور کس کے کہنے پر ہو رہاہے۔ ایک دفعہ پھر مقامی حکومتوں کے نظام کو لپیٹ دیا گیا ہے۔ 72سالوں سے پاکستان اور پاکستانیوں کو تجربات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔
 یہ بات تو عیاں ہو گئی ہے کہ گذشتہ 23سالوں سے اقتدار کے خواب دیکھنے والی پاکستان تحریک انصاف کے پاس ہوم ورک مکمل نہیں تھا اور نہ ہی اُن کے پاس کوئی ایسی ٹیم ہے جو مسائل کے گرداب میں گھرے پاکستان کو نکال سکے۔

بیورو کریسی مکمل طورپر بے لگام ہو چکی ہے۔ سرکاری اداروں میں کرپشن دوگناہو گئی ہے۔ مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ ہر ادارہ شتر بے مہار کی مانند ہو چکا ہے۔ فکر معاش اور مایوسیوں کے آسیب نے قوم کو اِس قدر انتہا کا بے حس بنا دیا ہے کہ آج قوم سزا یافتہ مجر م اور شہید، دنوں پر پھول کی پتیاں نچھاور کرنے لگی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :