شعبہٴ اُردو، منہاج یونیورسٹی لاہور میں ہونے والی تحقیقی سرگرمیاں

بدھ 12 مئی 2021

Muhammad Usman Butt

محمد عثمان بٹ

زبان خدا کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں میں سب سے اہم نعمت ہے جو مافی الضمیر بیان کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔ یہ اظہار اور انسانی علوم کی فراہمی میں نمایاں کردار کی حامل ہوتی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے اِنسانی زندگی اور تہذیب میں بنیادی مقام حاصل ہے۔ انسان کی روزمرہ زندگی میں باہمی روابط کو فروغ دینے میں مرکزی کردار زبان ہی ادا کرتی ہے۔

یہ اِنسانی خیالات اور تصورات کو تفہیم فراہم کرتی ہے۔ اِسی کی بدولت ادب تشکیل پاتا ہے جس کے ذریعے سماج،کلچر، سیاست اور تاریخ کی تفہیم ممکن ہوپاتی ہے۔ زبان کے ذریعے نہ صرف علمی، ادبی، تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی شعور بیدار ہوتا ہے بلکہ اِس سے تخلیقی حسیت کا عمل بھی نمو پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مختلف جامعات میں زبانوں کے شعبے کو بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔

(جاری ہے)

اِسی اہمیت کے پیشِ نظر منہاج یونیورسٹی لاہور نے فیکلٹی آف لینگویجز میں انگریزی، اُردو اور عربی زبانوں میں مختلف سطح کے پروگرام شروع کر رکھے ہیں۔ اِن زبانوں میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح کے مختلف پروگرام منہاج یونیورسٹی کروا رہی ہے۔اُردو اِس وقت دنیا میں اپنے بولنے اور سمجھنے والی آبادی کے اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے جسے پاکستان میں بالخصوص اور بھارت میں بالعموم لنگوا فرینکا کی حیثیت حاصل ہے۔

اُردو زبان کی اِس اہمیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے منہاج یونیورسٹی لاہور نے اُردو زبان و ادب کے حصول پر زور دیا۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے یونیورسٹی نے فیکلٹی آف لینگویجز کے زیرِ انتظام اسکول آف اُردو قائم کیا اور اِس شعبہ میں بی ایس اُردو (چار سالہ)، ایم فل اُردو اور پی ایچ ڈی اُردو جیسے پروگرامز کا آغاز کیا۔ منہاج یونیورسٹی، لاہور میں شعبہ اُردو کے تحت چلنے والے یہ تمام پروگرامز ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کی طرف سے منظور شدہ ہیں۔

اُردو کا شعبہ، اُردو زبان و ادب میں مذکورہ اکیڈمک ڈگریاں پیش کرتا ہے جس کی ملک کے تعلیمی شعبہ میں بہت زیادہ طلب پائی جاتی ہے۔ شعبہ اُردو کے لیے یونیورسٹی کی جانب سے دستیاب سہولتوں میں سب سے بڑی سہولت کتب خانہ ہے جس کا ایک بڑا حصہ اُردو زبان و ادب کے لیے وقف ہے۔ اِس کے علاوہ اساتذہ اور طلبا کے لیے آن لائن/ڈیجیٹل کتب خانے کی سہولت بھی دستیاب ہے۔

طلبا شعبہ اُردو سے ڈگری مکمل کرنے کے بعد بطور استاد، ماہرِ مضمون یا لیکچرار، کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ پرنٹ یا الیکٹرونک میڈیا میں بطور مدیر، مترجم یا پروف ریڈر کے طور پر بھی خدمات فراہم کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں شعبہ اُردو سے فارغ التحصیل طلبا مصنف، شاعر، ادیب یا نقاد وغیرہ کی حیثیت سے بھی ملکی اور بین الاقوامی سطح پرنمایاں ہوتے ہیں۔


شعبہٴ اُردو، منہاج یونیورسٹی لاہورکے تحت معیاری تحقیقی موضوعات و مقالہ جات، تحقیقی مجلہ”ضوریز“،” حسان بن ثابت نعت ریسرچ سنٹر“، اور مختلف سیمینارز اور کانفرنسیں، تحقیقی سرگرمیوں کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہیں۔یہاں شعبہٴ اُردو کا قیام سال 2013ء کو عمل میں آیا۔ محترم پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد عزمی# اِس شعبہ کے پہلے سربراہ تعینات ہوئے جو فیکلٹی آف لینگویجز کے ڈین بھی رہے۔

عزمی# صاحب کی کاوشوں کی بدولت اور اُن کی سربراہی میں منہاج یونیورسٹی لاہور کے شعبہ اُردو نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔ شروع میں محدود وسائل کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر عزمی# صاحب کی ہمت،محنت، جنون اور مسلسل لگن سے کچھ ہی عرصہ میں یہاں طالب علموں کا تانتا بندھ گیا۔ اب یہ عالم ہے کہ ہر سمسٹر میں داخلہ فارم جمع کرانے والوں کی ایک کثیر تعداد ہوتی ہے اور میرٹ کے نظام کی مکمل عمل داری کو بدرجہ اُتم ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔

لہٰذا ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے قواعد و ضوابط کی روشنی میں خوش نصیب اور میرٹ پر پور اُترنے والے محدود طالب علم ہی یونیورسٹی کے منظورہ شدہ پروگرامز میں داخلے کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ 2013ء میں شعبہ اُردو کے قیام کے ساتھ ہی ایم فل اُردو میں داخلوں کا آغاز ہوا جس کے لیے ایوننگ اور ویک اینڈ پروگرامز میں داخلوں کا اجرا کیا گیا۔ اگلے ہی سال یہاں شعبہ اُردو نے 2014ء میں پی ایچ ڈی اُردو کے پہلے سیشن(2014ء تا 2017ء) کا آغاز کیا۔

2017ء میں اِس کے دوسرے سیشن (2017ء تا 2020ء) کو شروع کیا گیا اور اِس وقت تیسرا سیشن (2020ء تا 2023ء) اپنے ابتدائی زینے پر قدم رکھ چکا ہے۔ شعبہ اُردو میں اِس وقت بی ایس اُردو، ایم فل اُردو اور پی ایچ ڈی اُردوکے ایوننگ اور ویک اینڈ پروگرامز چل رہے ہیں۔ اِس شعبے سے منسلک اسکالرز کی خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر مختار احمد عزمی# صدرِ شعبہ کے علاوہ ملک کے معروف اُردو اساتذہ یہاں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

اُن اساتذہ میں ڈاکٹر محمد فخر الحق نوری، سابق پرنسپل،اورینٹل کالج،پنجاب یونیورسٹی لاہور، ڈاکٹر مظفر عباس، سابق وائس چانسلر، یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہورجیسے اہم نام بھی شامل ہیں۔ نوری# صاحب اِس وقت شعبہٴ اُردو میں تدریسی فرائض کے علاوہ فیکلٹی آف لینگویجز کے ڈین کی ذمہ داریاں بھی نبھا رہے ہیں۔صدر شعبہٴ اُردو،ڈاکٹر فضیلت بانو کے علاوہ یہاں منسلک دیگر اساتذہ میں ڈاکٹر ناصر بلوچ، ڈاکٹر سید ندیم جعفر اور ڈاکٹر سامیہ احسن کے نام نمایاں ہیں۔


تحقیقی ترقی اور جدیدتحقیقی رجحانات کو خاطر خواہ فروغ دینے کی غرض سے منہاج یونیورسٹی لاہور میں سنٹر آف ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (CRD) کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا۔ یہ ادارہ اپنے قیام سے ہی نہایت فعال اور اثر انگیز رہا ہے۔ یہ اساتذہ اور اسکالرز دونوں کی تحقیقی صلاحیت میں اضافے،اُن کی استعدادِکار بڑھانے اور اُنھیں تربیت فراہم کرتا ہے۔

مرکز برائے تحقیق و ترقی، اسکالرز میں متعدد مضامین کے حوالے سے تازہ نظریات کو جنم دینے کے مواقع فراہم کرتا ہے اور علمی پلیٹ فارمز پر فکری روابط اور اظہارِ خیال کی حوصلہ افزائی کے لئے مکالمے اور بحث و تمحیص کا انتظام بھی کرتا ہے۔مستقبل کے منصوبوں میں اِس مرکز کے تحت ریسرچ اسکالرز کی حوصلہ افزائی کرنا، اُن کے لیے مقداری اور معیاری تحقیق کے مواقع فراہم کرنا شامل ہے۔

رواں برس سنٹر آف ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے سب سے بڑے اہداف میں سے ایک اہم ہدف یہ رہا ہے کہ ریسرچ فیکلٹیز کے زیرِاہتمام منہاج یونیورسٹی، لاہور میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کرنا ہے جو معاشرتی افکار اور عمل کی ترقی اور فروغ کی خواہش ہے۔ اِس حوالے سے سماجی فلاح کے تناظر میں مختلف سرگرمیاں منعقدکی جائیں گی جس کے لیے مختلف تحقیقی جرائد کا اجرا بھی کیا جائے گا۔


سنٹر آف ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے زیرِ انتظام شعبہٴ اُردو سے جاری ہونے والے تحقیقی جریدے کا نام''ضوریز''ہے۔ منہاج یونیورسٹی سے جاری ہونے والے ضوریز سمیت تمام تحقیقی جرائد کی خاصیت یہ ہے کہ اِن میں اصل تحقیقی مواد شائع کیا جاتا ہے جو کہیں اور کسی بھی شکل میں پہلے سے شائع شدہ نہیں ہوتا۔ اِس ضمن میں ہائیر ایجوکیشن کمیش پاکستان کی جانب سے جاری کردہ تمام ہدایات پرمکمل عمل کیا جاتا ہے۔

اُنھی ہدایات کی روشنی میں مقالہ جات کی قبولیت کے لیے Plagiarism یا سیمیلریٹی انڈیکس کی قیمت انیس فی صد سے کم ہونی چاہیے،پر بھی خصوصی عمل کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں Blind Peer Review پالیسی کی بھی پیروی کی جاتی ہے۔ مقالہ جات کے ساتھ 150 سے 200 الفاظ پر مشتمل تلخیص (Abstract) بھی شامل کی جاتی ہے۔ اِس کا پہلا شمارہ جولائی تا دسمبر 2015ء ڈاکٹر مختار احمد عزمی# کی ادارت میں 2015ء میں جاری ہوا۔

اب تک اِس کے چھ شمارے جاری ہو چکے ہیں اور ساتواں شمارہ پریس میں ہے جو کچھ عرصے تک منظرِ عام پر آ جائے گا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کی جانب سے اِس کی منظوری کا عمل تکمیل کے مراحل سے گزر رہا ہے جو جلد ہی مکمل ہو جائے گا اور ایچ ای سی کے منظور شدہ تحقیقی جرائد کی فہرست میں یہ ایک قابلِ قدر اضافہ ثابت ہو گا۔
منہاج یونیورسٹی کے شعبہٴ اُردو کی ایک خاص اور منفرد بات یہ ہے کہ فیکلٹی آف لینگویجز کے زیرِ انتظام و اہتمام” حسان بن ثابت نعت ریسرچ سنٹر“ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کی بدولت اُردو میں نعتیہ کلام کو تحقیقی بنیادوں پر فروغ دینا اِس سنٹر کے نمایاں مقاصد میں سے ایک اہم مقصدہے ۔

اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ دنیا بھر کی جامعات میں ایک منفرد تحقیقی مرکز ہے جس کے ذریعے نعتیہ شاعری کی اہمیت جامعات میں بھی نمایاں ہوگی۔ اِس نئے تحقیقی نعت مرکز کے ذریعے طلبا میں نہ صرف نعتیہ شاعری کے رجحانات کی ترویج ممکن ہو پائے گی بلکہ ملکی اور بین الاقوامی منظرنامے پر مختلف مشاعروں کے ذریعے نعتیہ کلام میں تحقیقی عناصر کو بھی رواج ملے گا۔


یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام مختلف اوقات میں منعقد ہونے والے سیمینارز اور کانفرنسیں نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کا باضابطہ حصہ ہوتے ہیں۔ اِن سیمینارز اور کانفرنسوں میں ملک اور بیرونِ ملک سے مختلف اسکالرزتشریف لاتے ہیں جس سے طالب علموں کو سیکھنے کے بے شمار مواقع ملتے ہیں۔ اِس کے علاوہ یہ نئے اسکالرز کے لیے اپنا تحقیقی مواد پیش کرنے کے مواقع بھی پیدا کرتے ہیں۔

حالیہ کرونا کی وبا کے باعث ایسے سیمینارز اور کانفرنسیں آن لائن منعقد کیے جارے ہیں اور ایسا منہاج یونیورسٹی میں بھی ہورہا ہے۔سیمینارز اور کانفرنسوں کی بدولت اسکالرز کے مابین علمی، ادبی اور تحقیقی رجحانات کو فروغ ملتا ہے۔ حالیہ برس میں ''قومی زبان و ادب کانفرنس(NLLC)'' کے عنوان سے منہاج یونیورسٹی لاہور میں شعبہ اُردو کے زیرِ انتظام زبان و ادب کے فروغ کے لیے ایک اہم اُردو کانفرنس کے انعقاد کا انتظام کیا گیا جس کے چیف آرگنائزرڈاکٹر مختار احمد عزمی#پروفیسرشعبہٴ اُردو تھے۔

زبان و ادب کے عصری تقاضوں کو خصوصی طور پر اِس کانفرنس کی بنیاد میں شامل کیا گیا تاکہ زبان و ادب کے قومی اور علاقائی حوالوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب لایا جا سکے۔
شعبہ اُردو منہاج یونیورسٹی لاہور کی تحقیقی سرگرمیوں میں ایک نمایاں حیثیت اِس شعبے میں پی ایچ ڈی کی سطح پر ہونے والی تحقیق کو حاصل ہے۔ ویسے تو یہاں ایم فل کی سطح پر ہونے والی تحقیق بھی معیار کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے مگر پی ایچ ڈی کی سطح پر موضوع کے انتخاب سے لے کر مقالے کا جائزہ ہونے تک تمام مراحل میں اِس بات کا خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا ہے کہ تحقیق میں کسی بھی قسم کا سقم نہ رہنے پائے۔

تحقیق کی جانچ کے لیے معیار اور پیمانے کی سختی پر ہر اعتبار سے لازمی طور پر عمل درآمد کروایا جاتا ہے۔ اِس تحقیق کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اُردو زبان و ادب کے حوالے سے بالکل منفرد نوعیت کے موضوعات کو تحقیق کے لیے منتخب کیا جا رہا ہے۔ سات سال کے قلیل عرصے میں اساتذہ اور طلبا کی محنت اور لگن سے اچھوتے موضوعات کو تحقیق کی بدولت اُردو کی ادبی دنیا میں رقم کیا۔

نظری مباحث ہوں یا پھر عملی تنقیدکی بات ہو منہاج یونیورسٹی لاہور میں اُردو زبان و ادب کے حوالے سے تحقیق کے لیے اُن موضوعات کو ترجیحاً شامل کیا جاتا ہے جو اگر بین الاقومی نہیں تو ملکی سطح کا احاطہ ضرورکرتے ہوں۔پی ایچ ڈی اُردو کے اہم موضوعات جن پر تحقیق مکمل ہونے پر منہاج یونیورسٹی متعلقہ ریسرچ اسکالرز کو ڈگری ایوارڈ کر چکی ہے اُن میں”پاکستان میں اُردو پر نو آبادیاتی دور کے اثرات“(محمد عطاء اللہ)، ”مجید امجداورورڈزورتھ کی شاعری میں فطرت اور ماحول“(ملک غلام حسین)،”پاکستان میں اردو شاعری کا تاریخی اور سیاسی مطالعہ“(خالد محمود)،”گجرات (پاکستان) کی علمی و ادبی روایت“(محمد ابوبکر فاروقی)، ”ایملی ڈکن سن اور خواجہ میر درد کی شاعری میں تصوف“(محمدوزیر)اور”اُردو غزل گائیکی“(طارق جاوید) شامل ہیں۔

اُردو نظم کے حوالے سے ایک نہایت اہم موضوع جس پر تحقیقی مقالہ پی ایچ ڈی اُردو کی ڈگری کے حصول کے لیے منہاج یونیورسٹی لاہور میں جمع ہو چکا ہے وہ”پاکستان اور بھارت میں اُردو نظم کا ارتقا: تقابلی مطالعہ“(مہناز انجم) کے عنوان سے ہے۔اِس کے علاوہ ”شمالی امریکا میں اُردو“ (قربان علی)، ”اُردو ادب پر عالمگیریت کے اثرات“ (محمد ریاض) اور ”قومی کونسل براے فروغِ اُردو زبان، نئی دہلی اور ادارہ فروغِ قومی زبان، اسلام آباد کی خدمات کا جائزہ“ (فرزانہ شفیع)وغیرہ جیسے اہم موضوعات پر تحقیقی مقالہ جات بھی اپنے اختتامی مراحل میں ہیں۔


شعبہ اُردو، منہاج یونیورسٹی لاہور میں ہونے والی تحقیقی سرگرمیوں کو اگر مجموعی طور پرسمیٹا جائے تو اِس کے بنیادی اعتبار سے ہم چار بڑے حصے بنا سکتے ہیں۔ پہلے حصے کا تعلق تحقیقی مجلے”ضوریز“ کے ساتھ ہے جو سہ لسانی یعنی اُردو، انگریزی اور عربی تین زبانوں میں زبان و ادب کے حوالے سے تحقیقی مضامین و مقالہ جات شائع کر رہا ہے۔ دوسرے حصے کا تعلق ”حسان بن ثابت نعت ریسرچ سنٹر“ کے ساتھ ہے جو اپنی تحقیق اور قیام کے اعتبار سے بالکل منفرد کارنامہ ہے جس کی گونج اِس سال منعقد ہونے والے عالمی نعتیہ مشاعرے میں بھی سنائی دی۔

تیسرا حصہ مختلف حوالوں سے شعبہ اُردو کے تحت منعقد ہونے والے علمی،ادبی،تحقیقی،تہذیبی اور ثقافتی موضوعات پر سیمینارز اور کانفرنسز کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ چوتھا حصہ اُن تحقیقی مقالہ جات کی شکل میں نمودار ہوتا ہے جس کی بدولت ریسرچ اسکالرز یہاں سے ڈگری وصول کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ملک کی کسی بھی ایسی یونیورسٹی سے منہاج یونیورسٹی مقابلہ کرنے کو بالکل تیار ہے جہاں اُردو کا شعبہ کام کر رہا ہے اور ایسا یہاں اعلیٰ نوعیت کی تحقیقی سرگرمیوں کی بدولت ہی ممکن ہوپایا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :