نااہلوں کاقبرستان

ہفتہ 23 جنوری 2021

Mumtaz Abbas Shigri

ممتاز عباس شگری

آپ نے بے شک دنیاجہاں دیکھے ہوں گے لیکن آپ کے ان دیکھے ہوئے ایام میں اسکردو بلتستان کی سردشامیں ،دریاشگرکی سریلی آوازیں،کھرمنک کے فلک بوس آبشاروں کے نظارے،خپلوچقچن مسجدکے منارے اورروندوکے پہاڑوں پربنے ہوئے گھروں کی خوبصورتی شامل نہیں توسمجھ لیجئے آپ کے سیروتفریح کے لمحے ابھی بھی نامکمل ہے،آپ کوایک دن ہی سہی شنگریلااسکردوکی دیدارکرنے کاموقع ملے توآپ اپنی زندگی پررشک کریں گے۔


میری شدید خواہش ہے کہ جب میں اس جنت نظیرزمین شنگریلا کے دل میں داخل ہوتوہواکی ہلکی لہریں لہراتی ہوئی میری آنکھوں کوٹھنڈک پہنچاتے ہوئے اپنی راہ لے لیں،گھڑی کی سوئی ایک لمحے کے لیے ہاں ایک لمحے کیلئے ہی سہی رک جائیں،یہ دن اتنالمباہوجائیں کہ میری لب کے آخری سرے سے یہ آس نکلے، کاش یہ سورج بھی اپنے ڈھلنے کے جگے کی طرف رخت سفرباندھ لیتا،تب تک میں اس کے مچھلیوں کی امن گاہ بنی ہوئی جھیل کے نیلے پانی کواپنی آنکھوں کے روشنیوں سے دیکھ کرٹھنڈک پہنچاتے ہوئے دل کے کو نے کونے میں اس کے ہرزرے کی تصویرنقش کرلیتا،میری خواہش ہے کہ ڈھلتے سورج کے نظارے اورچڑیوں کے گھونسلوں کی طرف واپسی کے آوازکے ساتھ ساتھ اس جھیل کے کنارے نیلے آسمان میں ستاروں کی آمدکانظارہ کرتے ہوئے ہاتھ میں چائے کی مگ پکڑکرکرسی کے پائے کواپنی پرسکون بدن کی قوت سے آہستہ آہستہ ہلاتے ہوئے رات کی تارکیاں چاروں سمیت پھیل جائے یوں میں ہمیشہ کیلئے نیندکی آغوش میں چلے جائیں ،اور رات کی تاریکی میں چانداس ندی سے اپنے آپ کوغسل دے کرواپسی پرگامزن ہونے کے بعدصبح کے روشنی کی پہلی کرن فلک بوس پہاڑکی چوٹی کے سرے کوچیرتے ہوئے میری طرف مائل ہو تومیرا بدن شنگریلاکی زمین کے اندراس لہلہاتے جھیل کے کنارے کِھلتے ہوئے گلاب کے بکھرے ہوئے پتیوں کی مہلک سونگ رہے ہو۔

(جاری ہے)


مجھے پچھلے سال زندگی میں پہلی بارآسمان کی چھت پرجانے کاموقع بھی ملا،دوستوں کے ہمراہ صبح کے سورج کی کرنوں کے ساتھ تیارہوکرروانہ ہوادوگھنٹے کی مسافت طے کرتے کرتے دیوسائی ٹاپ پرقدم رکھنے ہی والاتھا،میں اس وسیع وعریض پھولوں سے سجی میدان کواپنی آنکھوں سے دیکھنے کیلئے اس لیے بے تاب تھاکیوں کہ میں اسے صرف کتابوں اورتصویروں کی حدتک جانتاتھا،بل کھاتے ہوئے سٹرکوں کوبمشکل ختم کرکے جب ہماری گاڑی دیوسائی ٹاپ پرپہنچی تومیری یادیں جومیں نے کتابوں میں پڑھی تھی تازہ ہوگی،اوپرآسمان اورنیچے ہرے پھولوں سے لدے ہوئے میدان کودیکھ کرزندگی پررشک کرنے پرمجبورہوگیا، دیوسائی کاوسیع وعرض میدان بھی اپنی وجودمیں ایک الگ اورمنفرددنیاہے،وہاں کے سرسبزمیدان میں رنگ برنگے پھول کی کلیوں سے پھیلی ہوئی خوشبودیوسائی کی قدرمیں مزیداضافہ کرتا ہے،اس میدان کے وسط سے بہنے والے نالے کانیلاپانی دیکھ کرایسامحسوس ہوتاہے کہ گویایہاں سے لعل وجواہربہہ رہاہے،مگرافسوس کی بات یہ کہہ اس لعل وجواہرکاکسی کاکوئی فائدہ نہیں ،یہ پانی اپنی سریلی آوازوں کے ساتھ دیوسائی کاسرسبزوسیع میدان کوضرب تلوارکی طرح چیرتے ہوئے انڈیامیں داخل ہوتاہے،ہم صرف اس کانظارہ ہی کرسکتاہے اوربس۔


آپ یقین کرلیں پاکستان کاشماران ملکوں میں ہوتاہے جہاں پانچ پانچ دریابہنے کے باوجودشہروں کوپانی بھی میسرنہیں اوربجلی بھی،لوگ آج بھی پانی اوربجلی کیلئے ترس رہے ہیں،آپ کراچی سے لے کرکے ٹوتک جہاں بھی دیکھیں لوگ پانی اوربجلی کیلئے ترس رہے ہوتے ہیں،میں یہاں گفتگوکوکچھ لمحے کیلئے اسکردومیں روکناچاہتاہوں،اسکردوپاکستان کاواحدشہرہے جہاں پرگرمیوں میں چھ سے آٹھ گھنٹے جبکہ سردیوں میں پورے چوبیس چوبیس گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے،حالانکہ دریائے سندھ کابہاوبھی اسکردوشہرکے بغل سے ہوتاہے،لوگ بجلی کیلئے ترس رہے ہوتے ہیں حکمران طبقہ عوام کوہرگلی کے بعددوسری گلی دیکھاکربے وقوف بنارہے ہوتے ہیں،آپ انتہادیکھیں اسکردوکی یخ بستہ ہواؤں اورخون جمادینے والی سردی میں انتظامیہ کاکمال بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،ہرگھرمیں تلاشی لے کرالیکٹرک ہیٹرزضبط کرکے سوشل میڈیاپرتصاویرشیئرکرتے ہوئے کہتاہے بھئی ہم نے کمال کردیا،لوگ چھپ چھپائے گھروں میں ہیٹراورگیزراستعمال کررہے تھے ہم نے ضبط کرلیا،واہ انتظامیہ واہ ،شایدآپ بھی میرے ساتھ ان کیلئے تالی بجائیں گے،میری حکومت سے اپیل ہے ان صاحبان عقل کوخصوصی ایوارڈسے نوازاجائے کیونکہ ایسے انتظامیہ اورایسے اہلکاروں کوکھوناقوم کی بدبختی کاسبب بن سکتاہے،اوریہ لوگ برسوں بعداس روئے زمین پرنمودارہوتاہے۔

کوئی صاحب عقل انکویہ سمجھائیں کہ الیکٹرک ہیڑزاورگیزرکیوں اورکس لیے بنائے جاتے ہیں،کیایہ گرمیوں میں استعمال کرنے کیلئے بناتے ہیں؟۔مجھے امیدہے یہ حال صرف شہراسکردوکا نہیں بلکہ پورے پاکستان کے ہوں گے جہاں سردیوں میں ہیٹرزضبط کرکے لوڈشیڈنگ کراتے ہیں توگرمیوں میں بجلی بندکرکے عوام کوستاتے ہیں،میری حکومت پاکستان سے اپیل ہے آپ ملک میں بجلی کی پیداوارکوبڑھانے کی بجائے سردیوں میں ہیٹراورگیزضبط کروالیں ،گرمیوں میں پنکھے اورآئرکنڈیشن استعمال کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرواکرجیلوں میں ڈال دیں،یوں آپ کی حکومت بھی بچے گی ملک میں لوڈشیڈنگ بھی نہیں ہوگی۔


آپ کسی دن زندگی کے چندلمحوں میں سے ایک لمحہ نکال کربلتستان ریجن کادورہ ضرورکرلیں،آپ کویقین نہیں آئے گاقدرت نے اس خطے کوکون کون سے عظیم نعمتوں سے نوازاہے،دنیاکادوسرابلندترین چوٹی جوکہ شگرمیں واقع ہے ہرسال ہزاروں ملکی و غیرملکی سیاح اس طرف مائل ہوتے ہیں یوں ملک کی آمدنی میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوتاہے،دیوسائی کاوسیع وعریض میدان اوراس کے وسط میں نیلے پانی کانالہ دیکھ کرزندگی کا ہرلمحہ وہاں گزارنے کودل کرے گا،شنگریلااسکردومیں گزراہواایک دن بھی آپ اپنی زندگی میں کبھی نہیں بھول پائیں گے،لیکن یادرکھیے گابجلی کی لوڈشیڈنگ،پانی کی قلت اورسڑکوں کی حالت دیکھ کرآپ کے چاروں شانے چت ہوکررہ جائیں گے،حکومت اورانتظامیہ کی نااہلی آپ کوہردروازے پر،ہرسٹرک پر،ہرگلی میں اورہربازارمیں نظرآئے گا،اب حکومت چاہے تودیوسائی سے شتونگ نالہ پانی کارخ ہی موڑسکتے ہیں،اگریہ پانی سدپارہ جھیل میں داخل ہوجائے تواسکردوخودکفیل ہوجائے گا،لوگ انتظامیہ اورحکومت کی کاکردگی پررشک کریں گے،لیکن یہاں توتبدیلی سرکاربیٹھے ہوئے ہیں ،ان کااس کام سے کیالینادینا،دریائے سندھ کاپانی اسکردوسے اپنی پوری اب وتاب کے ساتھ گزرتاہے لیکن یہ دریالوگوں کے زمینوں کوکاٹ کرنقصان دینے کے علاوہ کسی کام کانہیں،کیوں نہیں ہے،کیونکہ حکومت کے پاس اس کوزیراستعمال لانے کی کوئی پالیسی ہے ہی نہیں ،حکومت چاہتی توبہت کچھ کرسکتی ہے ،حکومت لوگوں کوپانی اوربجلی کی سہولت ہی دے دیں ،لوگ جھولی پھیلاپھیلاکردعائیں دیں گے۔


لیکن مجھے امیدہے یہ حکومت ایساکوئی قدم نہیں اٹھائے گاجس سے شہریوں کوفائدہ ہو،یہ صرف سردیوں اورگرمیوں کاانتظارکرتے رہیں گے تاکہ سردیوں میں ہیٹراورگرمیوں میں پنکھے ضبط کرواسکیں،اورمیری درخواست ہے حکومت پاکستان ان انتظامیہ اورقابل فخراہل کاروں کوضرورایوارڈزسے نوازیں کیونکہ نااہلوں کے قبرستان میں مقیم لوگ ایوارڈلینے کے قابل بھی ہوتے ہیں اورمستحق بھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :