نظام تو اچھا ہے مگر؟

پیر 6 مئی 2019

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

عرصہ بیس سال قبل جب میں دوحہ قطر میں مسکن پذیر ہوا تو میری حیرت کی انتہا تھی کہ یہاں جس ادارے کا سب سے زیادہ دوکانداروں اور کاروباری اداروں میں خوف پایا جاتا تھا وہ بلدیہ کا محکمہ تھا،میرے لئے اس وقت یقینا اچنبے کی بات تھی کہ میں اس ملک سے ہجرت کر کے آیا تھا کہ یہاں میونسپلٹی یا بلدیہ کا کام خاکروبوں پر رعب جمانا،سینیٹری کے مسائل حل کروانااور باولے اور آوارہ کتوں کو مارنے کے سوا کچھ خاص نہیں تھا مگر یہاں تو جس کو دیکھو ذرا سی غیر معیاری اشیا سے واسطہ پڑا نہیں سیدھا بلدیہ کی دھمکی پہ اتر آتا کہ اگر آپ مجھے معیار سے گری ہوئی اشیا فروخت کریں گے تو میں بلدیہ کو شکائت کر دونگا۔

ادھر صارف نے دھمکی دی ادھر فروخت کنندہ کی بولتی بند اور فورا ہی خیال اور نظام درست۔

(جاری ہے)

تب مجھے اندازہ ہوا کہ ترقی یافتہ ممالک کا راز عوام کی فلاح و بہبود میں کیوں مضمر ہوتا ہے اور وہ کیسے لوگوں کی فلاح کو قلیل مدت میں ممکن بنا ڈالتے ہیں۔اس عوامی بہبود کے پیچھے بلدیاتی نظام اور اس کا صحیح اطلاق چھپا ہوتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے اپنی ذاتی انا کی اسیری سے نکل کر مخلصانہ کاوش سے ملکی ترقی کے لئے شب و روز ایک کر دئے انہی قوموں نے فلاح کے سورج کو طلوع ہوتے دیکھا ہے۔

گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ بلدیاتی نظام ہی ایک ایسا سسٹم ہے جو صحیح معنوں میں عوامی رستگاری و بہتری کا ضامن ہے۔بدقسمتی کہئے یا سیاستدانوں کی ذاتی انا و نااہلی یا پھر ملک اور عوام دشمنی کہ ملک میں بلدیاتی نظام کے سمت الراس کا مخلصانہ استعمال نہیں کیا جا سکا،سب حکومتوں نے اس نظام کو اپنے اپنے تجربات،خواہشات اور ذاتی مفاد کے بھینٹ چڑھا دیا۔

یقین جانئے اگر بلدیاتی نظام کو صحیح معنوں اور خلوص دل سے رائج کر دیا جائے تو ملک کے 80فیصد مسائل ویسے ہی حل ہو جائیں۔پاکستان میں اگر ہم بلدیاتی نظام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ 1947کے بعد ملک میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1935 کے سیاسی ڈھانچہ کو ہی نافذالعمل قرار دیا تاہم بلدیاتی نظام کی بات کریں تو وہ تسلسل تھا 1882 میں پیش کردہ لارڈ رپن کے لوکل سیلف گورنمنٹ کا ،کیونکہ برصغیر پاک و ہند میں وہ اس نظام کے سرخیل خیال کئے جاتے ہیں اور اسی بنا پر انہیں فادر آف لوکل سیلف گورنمنٹ بھی کہا جاتا ہے۔

مگر پاکستان بننے کے بعد 1964 میں صدر ایوب نے اپنے ذاتی سیاسی مفاد،حکومت کی طوالت کو برقرار رکھنے کے لئے اس نظام کو ایک مخصوص شکل میں متعارف کروایا کہ جس میں پاکستان کے دونوں حصوں میں سے 80 اور اسی ہزار بی ڈی ممبران کو صدر کے چناؤ میں ووٹ کا حق دیا گیا۔1972 میں ذوالفقار علی بھٹو نے نیا بلدیاتی قانون پیپلز گورنمنٹ آرڈیننس جاری کیا۔بعد ازاں صدر ضیا الحق نے 1979 میں مقامی حکومتوں کا آرڈیننس جاری کر کے انتخاب کروائے،1988 میں بھی بلدیاتی انتخابات کروائے گئے اور اس کے بعد صدر پرویز مشرف نے بلدیاتی نظام کو لا محدود اختیارات دے کر ایک نیا تجربہ کیا جو کسی حد تک کامیاب بھی رہا۔

موجودہ حکومت سے قبل مسلم لیگ ن نے بھی اگرچہ بلدیاتی انتخابات کروائے مگر سپریم کورٹ کے حکم پر۔
اب لوکل باڈیز ترمیمی بل 2019 پر دستخط کر دئے گئے ہیں۔یعنی اس نظام کے ساتھ ایک اور تجربہ،اس نظام کے تحت کارپوریشن اور میٹرو پولیٹن شامل ہو ں گی۔پنجاب کے 9 اضلاع کو میٹرو پولیٹن کا درجہ دیا گیا ہے اور اس میں سمبلی کے 55 اور ویلج کونسل کے ارکان کی تعداد 8ہوگی۔

سوال نظام کے اچھا یا برا ہونے کا نہیں ہے بلکہ اسے ایمانداری،خلوص اور وفا و عوامی ہمدردی کے ساتھ چلانے کا ہے،بلاشبہ اس نظام کے تحت نچلی سطح پر عوامی بہبود کے کام ہوں گے،صحت و صفائی ،تعلیم،قانونی تحفظ،وسائل کی فراہمی اور دیگر معاملات میں شہریوں کی نمائندگی کا عندیہ دیا گیا ہے۔لوکل سطح پر ٹیکس کی وصولی اور خرچ بھی کیا جائے گا،اور یہی کسی ملک کی فلاح میں عوامی معاشی مسائل کا حل بھی ہوتا ہے،کہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ ان کی فلاح و بہتری پر ہی خرچ کیا جائے۔

اس عمل سے وفاقی حکومت پر اور خزانہ پر بوجھ کم ہو جاتا ہے،اس طرح حکومت ،دیگر اداروں اور معاشی معاملات پر مکمل توجہ دے سکتی ہے۔یہ عمل یقینا معاشی استحکام میں بھر پور کردار ادا کر سکتا ہے،مگر کتا ابھی بھی کنویں میں ہی ہے کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ حکومت بھی اسی راہ پر چل نکلے گی جس پہ سب چلتے رہے ہیں اور نتیجہ عمر بھر چلتے رہے منزل ابھی نہیں آئی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :