
ثالثی مگر کیوں؟
پیر 14 اکتوبر 2019

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
علاوہ ازیں عراقی وزیراعظم عبدالمہدی بھی ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کے لئے کوشاں ہیں ۔عبدالمہدی ریاض کے دورہ کے بعد تہران کے دورہ کا بھی ارادہ رکھتے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان اور ایرانی صدر حسن روحانی کے درمیان بغداد میں ایک ملاقات کا بندبست کیا جائے۔اس لئے کہ ایران کے صدر حسن روحانی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنی تقریر میں ان خیالات کا اظہار کر چکے ہیں کہ خلیجی ممالک میں امن صرف اور صرف بات چیت سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔پاکستان نے دونوں اسلامی ممالک کے درمیان بڑھتے تناؤ میں اپنے آپ کو ثالثی کے لئے کیوں پیش کیا ہے؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں دونوں ممالک کے ساتھ پاکستان کے تاریخی حقائق اور تعلقات کی نوعیت کو بھی ذہن میں رکھنا ہے۔ایران اور پاکستان کے درمیان 900کلومیٹر طویل متصل سرحدہے،دونوں اسلامی ملک ہونے کی نسبت سے برادرانہ اور اچھے تعلقات رکھتے ہیں،پاکستان ایران اور ترکی کے درمیان ایک معاہدہ جسے RCD کہا جاتا ہے طے پایا گیا تھا جس کا دائرہ کار بڑھا کر اب اس کا نامECO رکھ دیا گیا ہے۔ایران کی سرحد،افغانستان سے جبکہ افغانستان سنٹرل ایشیا اور روس کا ہمسایہ ہے۔اس جیو سٹریٹجک ، جغرافیائی زمینی حقائق،برادرانہ تعلقات،سیاسی تعلقات اور ہمسائیگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اور مزید خطہ میں تمام ممالک کی سیاسی و معاشی اہمیت کے پیش نظر کچھ روز قبل ہی پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنا موقف ان الفاظ میں پیش کیا تھا کہ،ایران پاکستان افغانستان روس اور چین ایک دوسرے کے ساتھ سرحدیں ملنے کی وجہ سے اٹوٹ رشتہ میں بندھے ہوئے ہیں،اور یہ ہماری خارجہ پالیسی کے اصولوں میں سے ایک اصول بھی ہے۔اس لئے خطہ میں امن وامان قائم رکھنے کے لئے ہم تمام ممالک کو اپنے تعلقات مضبوط اور مستحکم رکھنے چاہئے ۔
اسی طرح سعودی عرب کے ساتھ تعلقات صرف سیاسی نوعیت کے ہی نہیں ہیں بلکہ مذہبی اور عوامی مضبوطی پر استوار ہیں کیونکہ دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے سے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں اور پھر سعودی عرب نے پاکستان کی مشکلات میں کبھی تنہا نہیں چھوڑا ہے بلکہ پاکستان کی مشکلات کے حل میں معاونت کے لئے آنکھیں بند کر کے مدد کو ہمہ وقت تیار پایا ہے۔محمد بن سلمان کا حالیہ دورہ پاکستان اور بیس ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کے معاہدات پر دستخط پاکستان اور سعودی عرب کی لازوال دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ایسی صورت حال میں ایران سعودی عرب کے درمیان کشیدگی اور تناؤ میں پاکستان کا اپنے آپ کو بطور ثالث پیش کرنا حق دوستی ادا کرنے کے مترادف ہے ،پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان یہ کردار اس لئے ادا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس عمل سے خطہ کا امن،سیاسی استحکام،بے روزگاری کا خاتمہ اور جنگی صورت حال میں کمی واقع ہو سکتی ہے،کیونکہ جنگیں مسائل کا حل نہیں بلکہ مزید مسائل کو جنم دیتی ہیں،جنگ یا جنگی ماحول اور تناؤ اقوام کو معاشی اور سیاسی لحاط سے کمزور کر دیتی ہیں۔اس لئے وزیراعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ خطہ کو کم کرنے کے لئے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب کیا جائے تاکہ امن وامان کی صورت اور فضا قائم ہو سکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.