
نیگرو انقلاب کے داعی
جمعہ 12 جون 2020

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
مارٹن لوتھر کنگ جونئر اور نیلسن منڈیلا کی نسلی تعصب کے خاتمہ کے لئے قربانیوں کی اگر دیکھا جائے تو تاریخ اس بات کی شاہد ہوگی کہ نیگرو قوم کے لئے انہوں نے اپنی پوری زندگی وقف کر رکھی تھی۔بلکہ نیلسن منڈیلا نے تو اپنے اس عظیم مقصد کے لئے اٹھائیس سال کی قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں،ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب وہ جیل گئے تھے تو جوان تھے اور جب رہا ہوئے ان پہ بڑھاپا آچکا تھا لیکن کمال ہے اس شخص کی قوت ارادی کا کہ انہوں نے اپنے مقصد کو بوڑھا نہیں ہونے دیا۔اسے اسی طرح جوان رکھا بلکہ اس مقصد میں اور شباب کا رنگ بھر دیا کیونکہ جب وہ جیل سے رہا ہوئے تو نسلی تعصب کی تحریک ایک انقلاب بن چکی تھی اور یہی ان کی کامیابی تھی۔جنوبی افریقہ میں نسلی تعصب کا خاتمہ ہوا،آزادی ملی اور نیلسن منڈیلا پانچ سالوں کے لئے ملک کے صدر منتخب ہوئے تاہم دوسری مرتبہ انتخابات میں حصہ یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اب نوجوان نسل کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنی چاہئے۔یہ ہوتی ہے لیڈر شب کی خوبی میرے ملک کی طرح نہیں کہ ایک بار جو طاقت کا مزہ لیا تو پھر ایسا چسکہ پڑا کہ تین تین بار حکومت کرنے سے بھی من نہیں بھرتا۔
حالیہ امریکی صورت حال کہ جس میں ایک پولیس مین نے ایک نیگرو جارج کلائیڈ کو محض بیس ڈالر کا جعلی نوٹ چلانے کے جرم کی پاداش میں جان سے مار ڈالا۔حالانکہ وہ پولیس کی حراست میں تھا اور کہیں بھاگا بھی نہیں جا رہا تھا۔اس ایک شخص کی موت نے نیلسن منڈیلا کی تحریک کو ایک بار پھر سے زندہ کردیا ہے اور مارٹن کے خیالات کو اپنی جان کی قربانی دے کر جلا بخشی ہے کیونکہ نسلی تعصب کے خاتمہ کی تحریک ایک بار پھر ایک ایسے انقلاب کا پیغام لا رہی ہے کہ یا تو اب امریکہ میں اس کا خاتمہ ہو کر رہے گا یا پھر ایوانوں میں اس کی گونج تادیر گونجتی رہے گی اور جارج کلائیڈ کی اس سوچ کو زندہ رکھے گی جو وہ اکثر اپنے دوستوں میں کہا کرتا تھا کہ میں دنیا کو بدلنا چاہتا ہوں۔اگرچہ اسے اس بات کا قطعی کوئی اندازہ نہیں تھا نہ ہی اس کے پاس کوئی لائحہ عمل تھا نا ہی کوئی انقلابی سوچ اور نعرے کہ جس سے اندازہ ہو سکے کہ وہ ایک انقلاب چاہتا ہے کیونکہ وہ تو ایک نشہ کا عادی شخص تھا بے روزگار بھی تھا سزا یافتہ بھی تھا،مگر اس کی سوچچ یہ ضرور تھی کہ اسے دنیا میں تبدیلی کے لئے ضرور کچھ کرنا ہے ۔دنیا گواہ ہے کہ جو کام وہ زندہ رہ کر نہیں کرپایا اس کی موت نے وہ کردکھایا ۔جارج کلائیڈ کی موت نے نہ صرف نسلی تعصب کے خاتمہ کی آواز کو ایک بار پھر سے اٹھایا ہے بلکہ اس تحریک میں گورے بھی اب شامل ہو رہے ہیں کہ پوری دنیا میں جارج کے حق میں اور نیگرو لوگوں پہ تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف کالوں کے ساتھ ساتھ گوروں نے بھی ان کی آواز کے ساتھ آواز شامل کرنا شروع کردی ہے۔گویا ایک اور نیگرو کی موت ایک نئے انقلاب کی آواز بن جائے گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.