
- مرکزی صفحہ
- اردو کالم
- کالم نگار
- مراد علی شاہد
- اینٹی منی لانڈرنگ بل،اپوزیشن کی بلبلاہٹ اور حکومت کی چالاکی
اینٹی منی لانڈرنگ بل،اپوزیشن کی بلبلاہٹ اور حکومت کی چالاکی
ہفتہ 19 ستمبر 2020

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
اجلاس میں ہونے والے فیصلہ سے باخبر کرنے سے قبل میں چاہتا ہوں کہ اپنے قارئین کو ایف اے ٹی ایف کے بارے میں مختصر سا تعارف پیش کردوں تاکہ انہیں یہ جاننے میں آسانی ہو سکے کہ اگر ہم یہ تاثر دنیا کے سامنے پیش نہ کرتے تو ہمیں کیا نقصانات ہو سکتے تھے۔
ایف اے ٹی ایف کا قیام 1989 میں عمل میں آیا۔2019 تک اس تنظیم کے اراکین کی تعداد انتالیس تھی۔اس تنظیم کا مقصد دنیا میں مختلف ممالک کے درمیان ہونے والی معاشی برائی منی لانڈرنگ کی روک تھام ہے اور اسی بنا پر یہ تنظیم تعاون نہ کرنے والے ممالک کو بلیک لسٹ میں شامل کر دیتے ہیں اور جن ممالک کو زیر مشاہدہ رکھا ہوا ہوتا ہے انہیں گرے لسٹ میں رکھا جاتا ہے اور جس پر مکمل اعتماد ہو اسے وائٹ لسٹ میں شامل کردیا جاتا ہے تاکہ دنیا کے کم ا ز کم وہ ممالک جنہوں نے اس قانون پر دستخط کر رکھے ہیں اس ملک کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس تنظیم کو تعاون نہ کرنے والے ممالک کو بلیک لسٹ میں کیوں شامل کرنا پڑتا ہے۔اس کے لئے ہمیں دو دہائی پیچھے تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ہوا یوں کہ جب نائن الیون کا واقعہ پیش ہوا تو اقوام متحدہ کے ادارے سیکیورٹی کونسل نے دو قراردادیں منظور کیں ایک قرارداد1373جبکہ دوسری قرارداد1267 پاکستان نے ان دونوں قراردادوں پر دستخط کر رکھے ہیں،جس کا مطلب یہ ہے کہ اس تنظیم کے تمام قواعدوضوابط کاپابند رہنا پاکستان کا اخلاقی وقانونی فرض ہے۔ 9/11 نے دراصل پوری دنیا کی فضا کو تبدیل کر دیا تھا خاص کر اس کا اثر پاکستان اور افغانستان پر بہت ہوا۔کیونکہ یہ وہ دور تھا جب پاکستان اور افغانستان پر بھی دہشت گردی کے سائے منڈلا رہے تھے تو ایسے میں پاکستان کا ان قراردادوں پر دستخط کرنا بنتا بھی تھا۔1267قرارداد میں دو شقیں تھیں جن پر ہر اس ملک نے عمل کرنا تھا جس نے ان اس قرارداد پہ دستخط کر رکھے تھے۔ایک دہشت گردی کو فنڈز کی فراہمی اور دوسرا انٹی منی لانڈرنگ۔چونکہ ممبر ممالک پر ان کی پابندی لازم تھی تو پاکستان کو بھی ان دونوں برائیوں کی روک تھام میں ایف اے ٹی ایف کے ساتھ تعاون کرنا لازم تھا۔اور پاکستان نے ان دونوں پر عمل پیرائی کی بھی لیکن کیا ہوا کہ مختلف مسائل کی بنا پر منی لانڈرنگ کے قانون پر پابندی کا کام تھوڑاسست پڑ گیا،جس کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کر رکھا تھا۔
مذکور دونوں باتوں پر عمل پیرائی کی بہت سی وجوہات تھیں جن میں سے چیدہ چیدہ کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔بیوروکریسی کا تعاون نہ کرنا۔سیاستدانوں کی من مانیاں،فیوڈلز اور وڈیروں کا پیسہ بیرون ملک غیر قانونی طریقے سے منتقل کرنا،منی لانڈرنگ کے لئے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنا کہ جس سے ملک کا وقار مجروح ہویعنی شوبز کی خواتین تک کو اس سلسلہ میں استعمال کیا گیا۔لیکن قانون کی گرفت میں تو ہمیشہ کمزور ہی آیا کرتے ہیں جیسا کہ افلاطون نے کہا تھا کہ
”قانون کی نظر میں سب برابر ہیں یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں صرف کیڑے مکوڑے پھنستے ہیں لیکن بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں“۔
چونکہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی جانب سے گرے لسٹ میں شامل کیا ہو اتھا اور آئندہ اجلاس میں عین ممکن تھا کہ تعاون نہ کرنے والے ممالک کی لسٹ میں شامل کر کے پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا جاتا جس کا خدشہ بھی تھا۔حکومت پاکستان نے اس سلسلہ میں حزب اختلاف سے استدعا کی کہ وہ ملکی وقار اور سالمیت کی خاطر ان کا ساتھ دے اور اسمبلی میں مذکور دونوں باتوں کیخلاف ایک بل پیش پاس کروا کے ایف اے ٹی ایف کو دکھایا جائے کہ ہمارا ملک اس سلسلہ میں قانون سازی کر رہا ہے اس لئے ہمیں گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں شامل کیا جائے لیکن حزب اختلاف نے ایسی شرائط رکھ دیں کہ جس سے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ یہ بل حکومت پاکستان کبھی بھی پاس نہیں کرو ا پائے گی اور نتیجہ میں پاکستان کو بلیک لسٹ کر دیا جائے۔ ان شرائط کو اگر آپ بھی پڑھ لیں تو کانوں کو ہاتھ لگائیں گے کہ یہ کون سے محب وطن ہیں جو اپنی کرپشن کو لیگل کرنے کے جواز تلاش کر رہے ہیں جیسا کہ ایک ارب روپے سے کم کی کرپشن کے بارے میں کسی قسم کی کوئی جانچ پڑتال نی کی جائے یعنی کہ اسے جائز قرار دے دیا جائے،دوسری بات یہ کہ 99سے قبل کے تمام کیسز کو ختم کر دیا جائے اور تیسری اہم بات کہ کسی بھی سیاستدان کو پکڑا نہ جائے۔اگر حکومت نہیں مانتی تو ان کے ساتھ تعاون نہ کیا جائے کہ ا یسا کرنے سے نہ صرف یہ کہ عمران حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ پاکستان کی معاشی مسائل بھی بڑھ جائیں گے۔عمران خان حکومت کو گرانے کے لئے ہی اس بل کو ایوان بالا میں دو بار مسترد بھی کیا گیا۔اور اپوزیشن کا خیال یہ تھا کہ اب اس بل کو منظور کروانا ناممکن ہوگا لیکن عمران خان نے ہوم ورک مکمل کیا ہوا تھا،اس نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا یا اور اس میں اس بل کو منظوری کے لئے پیش کردیا جسے کہ اپوزیشن کی برتری کے باوجود منظور کر لیا گیا۔اب جبکہ بل منظور ہو چکا ہے تو حزب اختلاف سیخ پا اور چیخیں مار رہی ہے کہ یہ بل دراصل اپوزیشن کے خلاف نہیں ہے بلکہ ملکی مفادات کے خلاف ہے۔ حزب اختلاف نہ صرف اس پر خوف زدہ ہے بلکہ بلبلا رہی ہے۔کیونکہ پی ٹی آئی تو پہلی مرتبہ حکومت میں آئی ہے جبکہ دونوں بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور ن لیگ تو ایک سے زائد بار حکومت کر چکی ہیں اس لئے انٹی منی لانڈرنگ میں ان کے لوگوں کا نام خاص کر ان کے راہنماؤں کا نام زیادہ آنے کی توقعات ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کل سے محلہ سے محلات تک اور دوکانوں سے ایوانوں تک اس بل کے بارے میں اپوزیشن کی بلبلاہٹ صاف سنائی دی جارہی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.