ہمارے شہداء ہمارا فخر

بدھ 16 دسمبر 2020

Mustansar Baloch

مستنصر بلوچ

پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لئے افواج پاکستان کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ملکی سرحدوں کے دفاع کا عظیم فریضہ ہو یا دہشتگردی کے خلاف جنگ، پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے ہمیشہ جانوں کا نذرانہ پیش کرکے وطن عزیز اور پاکستانیوں کی حفاظت کا عظیم فریضہ سرانجام دیا ہے۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے جذبہ ایمانی کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے ڈٹ کر اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو پسپائی پر مجبور کیا تو 1971 کی جنگ میں بھی وطن عزیز کی حفاظت کے لئے افواج پاکستان کے افسروں اور جوانوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا۔

یوں تو افواج پاکستان کی تاریخ شہداء کی عظیم داستانوں سے بھری پڑی ہے مگر یہاں شجاعت کے ان عظیم پیکروں کا ذکر کرنا چاہوں گا جو 1971 کی جنگ کے دوران اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرکے تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہ گئے۔

(جاری ہے)


میجر شبیر شریف پاک فوج کے وہ درخشاں ستارے ہیں جنہوں نے اپنی بہادری اور شجاعت کے بل بوتے پر  نشان حیدر اور ستارہ جرات دونوں اعزاز حاصل کئے، میجر شبیر شریف شہید نے بھارتی افواج کے خلاف لڑتے ہوئے جرات و شجاعت کی عظیم داستان رقم کی اور  6 دسمبر 1971 کو جام شہادت نوش کیا۔


شہید سوار محمد حسین نے دشمن افواج کے خلاف ہر معرکے  میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، وطن عزیز کے دفاع کے لئے کسی بھی خوف سے بالاتر ہو کر شہید سوار محمد حسین نے دشمن افواج  کا مردانہ وار مقابلہ کیا، انہیں جرات وبہادری کی وجہ سے نشان حیدر سے نوازا گیا۔
میجر اکرم نے 5 دسمبر 1971 کو پاک بھارت جنگ کے دوران جام شہادت نوش کیا، دشمن کے خلاف جرات و بہادری کی عظیم مثال قائم کرنے پر انہیں اعلی فوجی ایوارڈ نشان حیدر سے نوازا گیا۔


میجر محمد حنیف دھرتی کے ان بہادر بیٹوں میں سے ایک تھے جو اپنی آخری سانس تک دشمن کے خلاف محاذ پر ڈٹے رہے، بہادری کے اس عظیم پیکر کو ستارہ جرات سے نوازا گیا۔
میجر عارف شہید کا شمار بھی ان بہادر افسروں میں ہوتا ہے جو اپنے جوانوں کو لیڈ کرتے ہوئے دشمن کا مقابلہ کرتے رہے،  میدان جنگ میں ان کی ہمت اور بہادری پر ستارہ جرات سے نوازا گیا۔

وہ 3 دسمبر 1971 کو دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔
نائب صوبیدار خوشی محمد بھی شجاعت کی ان مثالوں میں سے ایک ہیں جو 1971 کی جنگ کے دوران شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے ،دشمن کے خلاف بہادری سے ڈٹے رہنے پر انہیں تمغہ جرات سے نوازا گیا۔ سپاہی نور حسین نے بھی دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے شہادت کو گلے لگایا انہیں بھی تمغہ جرات سے نوازا گیا۔


سپاہی شاداب ولی خان، دھرتی کا ایک بہادر بیٹا، جس پر قوم کو فخر ہے، شاداب ولی خان  1971 کی جنگ کے دوران درجنوں بھارتی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے بعد جام شہادت نوش کرگئے، بہادری کی عظیم مثال قائم کرنے پر انہیں تمغہ جرات سے نوازا گیا۔
میجر صابر کمال کو 1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے خلاف بہادری کا مظاہرہ کرنے پر ستارہ جرات سے نوازا گیا۔


میجر ممتاز علی برنی نے بھی 1971 کی جنگ کے دوران دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے شہادت کا درجہ حاصل کیا،ان کی ہمت اور بہادری پر انہیں ستارہ جرات سے نوازا گیا۔
ستارہ جرات سے نوازے جانے والے لیفٹیننٹ کرنل راشد احمد قریشی نے 1971 کی جنگ میں دشمن سے جھڑپ کے دوران شہادت قبول کی۔
لانس نائیک مشتاق علی نے دشمن سے لڑائی کے دوران شہادت کو گلے لگایا، دشمن فوجیوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے پر انہیں تمغہ جرات سے نوازا گیا۔


ایک بڑے دشمن کے مقابلے میں وطن عزیز کا دفاع کرتے ہوئے نائب صوبیدار بہادر خان بھی جام شہادت نوش کر گئے،ان کی عظیم قربانی پر انہیں تمغہ جرات سے نوازا گیا۔
میجر رفیق احمد کو ستارہ جرات سے نوازا گیا، وہ 1971 کی جنگ کے دوران دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تھے۔
لیفٹیننٹ کرنل عثمان حمید جعفری نے محاذ جنگ پر ڈٹ کر دشمن فوجوں کا مقابلہ کیا اور دشمن کے حملے کے دوران جام شہادت نوش کیا انہیں جرات و بہادری پر ستارہ جرات سے نوازا گیا۔

میجر عارف سعید نے 1971 کی جنگ میں دشمن کے خلاف کارروائی کے دوران شہادت قبول کرلی ، دشمن کے خلاف بہادری کا مظاہرہ کرنے پر انہیں ستارہ جرات سے نوازا گیا۔
ستارہ جرات سے نوازے جانے والے کیپٹن محمد عبد المالک نے 1971 کی جنگ کے دوران دشمن فوجوں کا بہادری سے مقابلہ کیا اور شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوئے۔
نائب صوبیدار قاضی محمد یونس نے 1971 کی جنگ کے دوران دشمن کے خلاف کارروائی میں شہادت حاصل کی،ان کی ہمت اور بہادری پر انہیں تمغہ جرات سے نوازا گیا۔


کیپٹن مجیب فقر اللہ خان نے 1971 کی جنگ میں لڑائی کے  دوران متعدد دشمن فوجیوں کو ہلاک کیا، انہیں بہادری پر ستارہ جرات سے نوازا گیا۔
سپاہی داؤد حسین نے انفرادی طور پر بہادری کی مثالیں قائم کرتے ہوئے دشمن کو بھاری جانی نقصان پہنچایا، انہیں تمغہ جرات سے نوازا گیا۔
سپاہی محمد نذیر،صوبیدار عبدالمجید اور سپاہی محمد اکرم  نے 1971 کی جنگ کے دوران دشمن کے خلاف مادر وطن کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ،انہیں جرات و بہادری کی مثالیں قائم کرنے پر ستارہ جرات سے نوازا گیاجبکہ میجر محمد ایوب اور ان کے جوانوں نے مل کر دو دشمن بٹالینز کےحملے کو پسپا کردیا ،جام شہادت نوش کرنے والے میجر محمد ایوب کو ستارہ جرات سے نوازا گیا۔


1971 کی جنگ کے دوران پاکستان ایئر فورس کے شاہینوں نے بھی پاکستان کے مقابلے میں بہت بڑی فضائیہ کے خلاف اپنی صلاحیت سے کہیں ذیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ پاک فضائیہ کے پائلٹ راشد منہاس نے بہادری کا سب سے بڑا قومی اعزاز نشان حیدر حاصل کیا، راشد منہاس 17 فروری 1951 کو پیدا ہوئے، وہ پاک فضائیہ کی طرف سے قومی اعزاز حاصل کرنے والے سب سے پہلے اور نشان حیدر حاصل کرنے والے سب سے کم عمر افسر ہیں۔


1971 کی جنگ کے دوران پاک فوج کے شیر جوانوں کی بہادری کا اعتراف دشمن نے بھی کیا، ہندوستانی کمانڈنگ آفیسر نے نشان حیدر حاصل کرنے والے لانس نائک محمد محفوظ شہید  کی بہادری کا اعتراف کرتے ہوئے بیان کیا کہ "میں نے اپنی زندگی میں اس طرح کا بہادر جوان نہیں دیکھا"۔ اگر وہ ہندوستانی فوج میں ہوتے تو میں انہیں سب سے بڑا فوجی ایوارڈ دیتا۔
اب دنیا اس حقیقت کا اعتراف کرچکی ہے کہ پاک فوج کے افسر اور جوان جذبہ حب الوطنی اور قربانی کی عظیم مثالیں قائم کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے،  وطن کی سرحدوں کا دفاع کا معاملہ ہو یا دہشتگردی کے خلاف جنگ، افواج پاکستان کبھی اپنے فرض منصبی سے غافل نہیں رہتیں۔

افواج پاکستان ہی کی بدولت نہ صرف ملک بلکہ خطے میں آج امن و امان قائم ہے، پاکستانی مسلح افواج نے بے شمار قربانیاں دے کر ہماری آزادی کو صلب ہونے سے بچایا ورنہ ایک وقت تھا جب دہشت گردی کا خطے پر راج تھا، آئے روز دھماکے اور قتل و غارت گردی کی وارداتوں نے شہریوں کا جینا محال کردیا تھا، ایسے میں افواج پاکستان ہی امن دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہوئیں اور ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ یقینی طور پر ہمارے شہداء ہمارا فخر ہیں جن کی قربانیوں کے باعث آج اس دھرتی پر امن قائم ہے اور ہم ایک آزاد قوم ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :