
بھارتی ریاستی دہشتگردی، مکتی باہنی سے مودی سرکار تک۔۔۔
جمعہ 25 دسمبر 2020

مستنصر بلوچ
را کے کارکنوں کے ساتھ مکتی باہنی دہشتگردوں کو بھارتی ریاستوں مغربی بنگال، اروناچل پردیش، بہار، آسام،ناگالینڈ، میزورم اور تریپورہ میں تربیتی کیمپوں میں باقاعدہ تخریب کاری کی تربیت فراہم کی جاتی رہی اور یوں 1970 کے آخر تک مکتی باہنی ایک مسلح اور تربیت یافتہ شرپسند فورس بن چکی تھی۔ اسی سال سے ہی بھارت نے اپنی سازش کو عملی جامعہ پہناتے ہوئے مکتی باہنی کے ذریعے مشرقی پاکستان میں تخریبی کاروائیوں کا آغاز کردیا۔
(جاری ہے)
مکتی باہنی دہشتگردوں نے ریلوے سٹیشنز،صنعتوں، ایندھن کے ذخائر اور بینکوں میں لوٹ مار کرنے کے ساتھ غیر بنگالیوں کو مارنے کے لئے کاروائیاں شروع کردیں اور مشرقی پاکستان میں خوف، بدامنی اور انارکی جیسی صورتحال پیدا کردی گئی، 26 مارچ 1971 کو پاک فوج نے شہریوں کے جان ومال کے تحفظ، امن وامان کے قیام اور ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لئے آپریشن سرچ لائٹ کا آغاز کیا۔
اس وقت مشرقی پاکستان میں تعینات پاک فوج کے جوانوں کی مجموعی تعداد صرف 12 ہزار تھی جو محض چھوٹے ہتھیاروں سے لیس تھے، مارچ 1971 میں شروع کئے جانے والے آپریشن سرچ لائٹ کے نتیجے میں اپریل 1971 کے آخری دنوں میں پاک فوج مکتی باہنی کو واپس ہندوستان دھکیلنے میں کامیاب ہوگئی۔ مکتی باہنی دہشتگردوں کی پسپائی دراصل بھارتی سازش کی ناکامی تھی جسے بھانپتے ہوئے 15 مئی 1971 کو ہندوستانی فوج کی مشرقی کمانڈ نے باضابطہ طور پر مکتی باہنی کی تنظیم نو کے لئے ‘آپریشن جیک پاٹ’ شروع کیا.اس حوالے سے ڈھاکہ کے آخری امریکی قونصل جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے امریکی سفارت کار آرچر بلڈ کے مطابق "مکتی باہنی کو تربیتی کیمپوں، اسپتالوں اور سپلائی ڈپو کے لئے ہندوستانی سرزمین فراہم کی گئی تھی۔" مکتی باہنی کے لئے ہندوستانی سرزمین ایک محفوظ ٹھکانہ تھا جہاں انہیں تمام تر سہولیات میسر تھیں، اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے ناگالینڈ کے جنگلوں میں ہندوستانی مسلح افواج نے خاص انتظامات کئے اور بھارتی فضائیہ کے تربیت یافتہ پائلٹس Otter DHC-3 طیاروں کی مدد سے مکتی باہنی کو رسد فراہم کرتے تھے۔
ہندوستانی فوج کے میجر جنرل اوبن نے مکتی باہنی سے بہترین اہلکاروں کا انتخاب کیا اور انہیں مشرقی بنگال میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرنے کے لئے خاص طور پر سیاسی اور فوجی تربیت دی گئی۔
اپنی سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بھارتی فوج نے مکتی باہنی کی شکل میں مشرقی پاکستان میں جو مظالم ڈھائے اسکی مثالیں دنیا کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہیں
قطب الدین عزیز نے اپنی کتاب Blood and Tears میں مشرقی پاکستان میں ظلم و بربریت کی داستان بیان کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کے 55 شہروں میں بہاریوں اور دیگر غیر بنگالیوں پر ہونے والے مظالم کے 170 عینی شاہدین کی روداد کو قلم بند کیا ہے، اس کتاب میں ایسے 110مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں مکتی باہنیوں نے بے گناہوں کا قتل عام کیا۔ اس قتل عام کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 1951 کی مردم شماری کے مطابق، مشرقی پاکستان میں 671،000 بہاری آباد تھے جن میں سے 20 فیصد مکتی باہنی کی بربریت کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے جبکہ ہزاروں خواتین کو جنسی تشدد اور ذیادتی کا نشانہ بنایا گیا، ڈھاکہ کے نواحی علاقے محمد پور اورمیرپور،یہاں بہاری اکثریت میں آباد تھے۔ مکتی باہنی کے درندوں نے ہجوم کی صورت میں ان علاقوں میں داخل ہوکر ہر انسان کو قتل کیا۔
1971 کے دوران ہندوستان اور مشرقی پاکستان کے 110 شہروں میں ہندوستانی فوج کے زیرانتظام مکتی باہنی دہشت گردوں کے تربیتی کیمپ قائم تھے،جہاں ہندوستانی فوج سادہ کپڑوں اور ان کے تربیت یافتہ مکتی باہنی دہشت گردوں نے دہشت گردی کی کارروائیوں میں 5 لاکھ سے زیادہ بے گناہ، مردوں، خواتین اور بچوں کا قتل عام کیا۔
دسمبر 1971 میں بھارت کے ہاتھوں پاکستانی فوجیوں کی شکست اور ہتھیار ڈالنے کے معاملے کو بھی بھارت کی طرف سے ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا 16 دسمبر 1971 تک مشرقی پاکستان میں تعینات پاکستانی فوج کے جوانوں کی مجموعی تعداد 34 ہزار تھی جن میں سے 23 ہزار پیدل فوجی دستے تھے، اس سلسلے میں بھارت کی طرف سے 93 ہزار پاکستانی فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کا دعوی من گھڑت ہی ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی نے 2015 میں اس حقیقت کو قبول کیا تھا کہ مکتی باہنی دراصل ایک ہندوستانی چال تھی مگر اب تاریخ بدلنے کے لئے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔
کہا جاتا ہے کہ دوسروں کے گھروں میں لگائی جانے والی آگ سے خود کو بھی محفوظ نہیں رکھا جا سکتا اور جس سازشی اور نفرت انگیز طرز عمل کا بیج بھارت نے 1968 میں مکتی باہنی کی شکل میں بویا تھا آج اسکی فصل بھارت میں ایک درجن سے زائد علیحدگی پسند تحریکوں کی شکل میں پک کر خود بھارت ہی کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔ مکتی باہنی سازش تیار کرنے والے شاید بھول گئے تھے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے اور اب بھارت کے لئے بھی "لوٹانے" کا وقت آن پہنچا ہے، مشرقی پاکستان میں لسانی تعصب کی بنیاد ڈالنے والا بھارت اب خود اپنے بچھائے ہوئے جال سے نکلنے میں ناکام ہے۔ بھارت کی مشرقی ریاستیں ایک ایسی اندھیر نگری بن چکی ہیں جہاں عوام تو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار ہی رہی ہے ساتھ ہی ریاست مخالف گروہ اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ اپنے ہی علاقوں میں بھارتی فوج کو نقل وحرکت کے لئے کرفیو لگانا پڑتا ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے جن لوگوں کو ہندوستان نے طاقت سے دبائے رکھا وہ اب نہ صرف ریاست کے خلاف کھڑے ہیں بلکہ ان کی دیکھا دیکھی باقی علاقوں کے رہنے والوں نے بھی آواز اٹھانی شروع کر دی ہیں۔
بھارتی ظلم و بربریت محض مشرقی پاکستان ہی تک محدود نہیں رہی بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی لاکھوں مسلمان بھارتی ریاستی دہشتگردی کا شکار ہیں، یوں تو گذشتہ سات دہائیوں سے غیر قانونی قبضے کے ذریعے بھارتی فورسز کی طرف سے کشمیری مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے مگر کبھی مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی تھی مگر نریندر مودی کے دور حکومت میں ہندوتوا نظریے کو پروان چڑھانے کے لئے نہ صرف بھارت میں اقلیتوں پر زمین تنگ کردی گئی بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے بھی آرٹیکل 35 اے اور 370 کو ختم کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے ساتھ آبادی کا تناسب بدلنے اور مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کے لئے ریاستی دہشتگردی کے ایک نئے باب کا آغاز کردیا گیا۔ اگست 2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں مکمل لاک ڈائون کا نفاذ کرکے فوجی دستوں کی نئی کھیپ جنت نظیر وادی میں پہنچی اور بندوق کے زور پر کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لئے انہیں گھروں میں محصور کر دیا گیا۔لاک ڈائون اور کرفیو کے دوران موبائل فون سروس اور انٹرنیٹ بند کرکے کشمیریوں کا رابطہ باقی دنیا سے منقطع کردیا گیا، ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور طبی عملہ کے بجائے بھارتی فورسز نے ڈیرے جما لئے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں کئی انسانی المیے جنم لینے لگے۔ اگست 2019 کے بعد جہاں ایک طرف کشمیری عوام کئی مہینوں پر محیط کرفیو اور لاک ڈائون سے مسائل کا شکار تو دوسری طرف بھارتی فورسز کی طرف سے بالخصوص نوجوانوں کو گھروں سے اٹھا کر نامعلوم مقام پر منتقل کرکے شہید کرنے کے واقعات میں بھی خاصی تیزی آئی، صرف یہی نہیں بلکہ کشمیری خواتین کی بے حرمتی اور جنسی ذیادتی کے بھی سیکڑوں واقعات سامنے آئے۔
مودی دور حکومت میں بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورذیاں ریکارڈ کی گئیں اور آج یہ حقیقت دنیا پر عیاں ہو چکی ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے جان ومال قطعی محفوظ نہیں، بھارت ایک فاشسٹ ریاست ہے جس کی ہٹ دھرمی کے باعث خطے کا امن دائو پر لگ چکا ہے۔
1947 سے آج تک مسلسل بھارت کی طرف سے ریاستی دہشتگردی کا سلسلہ، کشمیر پر غیر قانونی قبضے، مکتی باہنی کی شکل میں لسانی بنیادوں پر بے گناہوں کے قتل عام، اقلیتوں کے ساتھ بدترین سلوک، انسانی حقوق کی خلاف ورذیوں، لائن آف کنٹرول سیز فائر معاہدے خلاف ورذیوں اور پڑوسی ممالک میں دہشتگردی کو فروغ دینے کی صورت میں جاری ہے۔
اب وقت آن پہنچا ہے کہ اقوام متحدہ سنجیدگی سے سالہا سال سے جاری بھارتی ریاستی دہشتگردی کا نوٹس لے کر مودی سرکار کو لگام ڈالے کیونکہ درحقیقت جنگی جنون میں مبتلا بھارت کی مستقل ہٹ دھرمی کا تماشہ دیکھنے والی دنیا دو ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مستنصر بلوچ کے کالمز
-
ماحول دوست راوی سٹی منصوبے کی تکمیل دور حاضر کی اہم ترین ضرورت
پیر 31 جنوری 2022
-
روٹھے منائیں ،قربانیوں کونہ بھلائیں
منگل 7 دسمبر 2021
-
جنوبی وزیرستان میں قیام امن اور تعمیر وترقی میں ایف سی سائوتھ کا مثالی کردار
منگل 26 اکتوبر 2021
-
جنگلات کی افادیت اور رکھ جھوک جنگل منصوبہ
جمعرات 26 اگست 2021
-
معاشی مسائل کا حل، قدرتی وسائل سے استفادہ حاصل کرنے کے ساتھ گھریلو صنعتوں کا فروغ ناگزیر
پیر 16 اگست 2021
-
دہشتگردی کے خلاف جنگ میں خیبر پختونخوا پولیس کا نمایاں کردار۔۔۔
منگل 3 اگست 2021
-
شہر لاہور کی تبدیلی کا سفر
ہفتہ 17 جولائی 2021
-
خیبرپختونخوا بم ڈسپوزل سکواڈ کا قابل فخر سپاہی، عنایت اللہ ٹائیگر
منگل 13 جولائی 2021
مستنصر بلوچ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.