تیزی سے کم ہوتے پانی کے ذخائر اور صوبوں کے درمیان پانی کا تنازعہ حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ

ہفتہ 5 جون 2021

Mustansar Baloch

مستنصر بلوچ

پانی قدرت کے خزانوں میں سے انسان کے لئے ایک نعمت ہونے کے ساتھ کرہ ارض پر زندگی کے وجود کے لئے بھی لازمی ہے مگر بدقسمتی سے دنیا بھر پانی کے ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔
پاکستان میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں جہاں پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ماضی میں سیاسی اختلافات اور اس اہم ترین مسئلے پر قابو پانے کے لئے فنڈز مختص نہ کئے جانے کے باعث نئے ڈیمز تعمیر کرنے کا معاملہ ہمیشہ التوا کا شکار  رہا اور یوں گلیشیرز کے تیزی سے پگھلائو کی وجہ سے پانی کی ایک بڑی مقدار ذخیرہ نہ ہونے کے باعث سمندر کی نظر ہو کر ضائع ہو جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا مسئلہ سالہا سال سے چلا آرہا ہے مگر کسی بھی دور حکومت میں مستقل بنیادوں پر اس مسئلے کو حل کرنے کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

(جاری ہے)

کسی بھی حکومت نے اسے حل کرنے کی کوشش نہیں کی جبکہ صوبائی سطح پر منتخب عوامی نمائندوں  کی طرف سے ایک دوسرے پر پانی چوری کا الزام لگانا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے ہاں کوئی مستقل پالیسی پانی کی تقسیم کے حوالے سے موجود نہیں اگر واٹر منیجمنٹ کے حوالے سےسائنسی بنیادوں پر کوئی طریقہ کار  موجود ہوتا توصوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا تنازعہ کبھی سر نہیں اٹھاتا مگر ماضی کی طرح کچھ دنوں سے سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاملے پر تنازعہ میں شدت آئی ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں پانی کے ضیاع کو روکنے اور پانی کے ذخائر بڑھانے کے لئے نہ صرف نئے ڈیمز کی تعمیر کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہےبلکہ وزیراعظم عمران خان صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے تنازعہ کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لئے بھی کمر بستہ ہیں۔

حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم تمام صوبوں کو پانی کی تقسیم کے طریقہ کار کے حوالے سے ساتھ لیکر چلنا چاہتے ہیں، وفاقی حکومت تمام صوبوں کو سہولت فراہم کرنے کے لئے تیار ہے، وزیراعظم عمران خان ان دس سالوں کو نئے ڈیمز تعمیر کرنے کی دہائی قرار دے چکے ہیں اور حکومت اگلے دس  سالوں میں 13 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کے لئے پرعزم ہے۔


حکومتی ذرائع کے مطابق گذشتہ ماہ اپریل کے دوران پنجاب میں پانی کی قلت45 فیصد  اور سندھ میں 9 فیصد تھی جبکہ ان دنوں پنجاب کو 22 فیصد اور سندھ کو 17فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے۔پنجاب میں 2 فیصد پانی کوہ سلیمان سے شامل ہو کر بڑھا ہے۔
دوسری جانب بلوچستان حکومت نے ایک مرتبہ پھرپانی کی فراہمی کے حوالے سے سندھ حکومت کو  شدیدتنقیدکانشانہ بناتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ بلوچستان کو پٹ فیڈر کینال سے 7600 کیوسک پانی ملنا چاہئے مگر سندھ کی جانب سے تقریباً 6 ہزار کیوسک پانی فراہم کیا جا رہا ہے اسی طرح کیر تھر کینال سے 2400 کیوسک کے بجائے 1800 کیوسک پانی فراہم کیا جا رہا ہے بلوچستان حکومت کے مطابق حالیہ دنوں سندھ کی جانب سے ان دونوں نہروں میں 55 فیصد پانی کم چھوڑا جارہا ہے۔

حکومت بلوچستان ذرائع نے بتایا کہ پانی کی کمی کے باعث حالیہ صورتحال میں سندھ سے ملحق بلوچستان کے زرعی علاقوں میں 76 ہزار ایکڑ پر کھڑی فصلیں متاثر ہونے کا خطرہ ہے جبکہ بلوچستان حکومت نے  پانی چوری کا معاملہ سندھ حکومت اور مشترکہ مفادات کونسل میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پانی کے بحران پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ صوبوں کے درمیان پانی تقسیم کے فارمولے کو منصفانہ بنایا جائے،    صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم کے لئے جدید آلات نصب کئے جائیں تاکہ کسی بھی صوبے کی عوام کے حقوق پامال نہ ہوں پانی کی نگرانی کا نظام آن لائن کیا جانا چاہئے تاکہ حقائق پر مبنی ڈیٹا ہمیشہ دستیاب ہو جبکہ تمام  صوبوں میں بڑے ڈیمز کی تعمیراور زیر تعمیر ڈیمز کی جلد از جلد تکمیل کو یقینی بنایا جائے تاکہ پاکستان میں زراعت کے شعبے میں ترقی آسکے۔

پانی کو بچانے اور اس نعمت خدا وندی کے بہترین استعمال کے لئے ہمیں پانی کے استعمال میں جدت لانے کی بھی ضرورت ہے، کچے نالوں،گڑھوں  اور نہروں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے فصلوں کی آبپاشی میں پانی خاصی مقدار میں ضائع ہو جاتا ہے۔ ہمیں پانی کو ری سائیکل کرنے اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کی ضرورت ہے تاکہ فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنائے جانے کے ساتھ سیوریج کا گندا پانی فصلوں میں شامل ہو کر انہیں آلودہ نہ بنائے۔

ہمیں اپنے کاشتکاروں کو جدید آبپاشی کے نظام سے متعارف کرانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کم پانی سے بہتر اور زیادہ فصلیں اگائیں۔ پانی کے ضیاع کو روکنےاور اس کی اہمیت اجاگر کرنے  کے حوالے سے عوام کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ضرورت سے زیادہ پانی استعمال نہ کریں۔ ہمیں اپنے پانی کے ذخیرہ میں اضافہ کرنے کی اشد ضرورت ہے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ ہے جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے پاس 190 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے ان حقائق کی بنیاد پر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر پانی ذخیرہ کرنے کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر پالیسی بنا کر عملدرآمد یقینی نہ بنایا گیا تو آنے والے سالوں میں ملک کے بیشتر علاقوں میں قحط کی تباہ کاریوں کے لئے تیار رہنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :