
کیا قیدیوں کی رہائی امن کی ضمانت؟
منگل 14 اپریل 2020

نعیم کندوال
(جاری ہے)
جبکہ اس کے جواب میں طالبان نے ضمانت دی کہ افغان سر زمین القاعدہ سمیت کسی بھی دہشتگرد تنظیم کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس معاہدے میں قیدیوں کی رہائی کی شرط بھی شامل تھی۔
جس کے تحت 10مارچ 2020 ء تک طالبان کے پانچ ہزار قیدی اور افغانستان سیکیورٹی فورسز کے ایک ہزار اہلکار رہا ہونا تھے۔ تاہم فریقین کے درمیان تنازعات اور افغان حکومت کے اعتراضات کے باعث یہ معاملہ تاخیر کا شکار ہو تا گیا۔ یاد رہے کہ یہ معاہدہ طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان تھا۔ اس میں افغان حکومت کا کسی حد تک کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ قیدیوں کے تبادلے کا مرحلہ اس لیے اہم تھا کیونکہ اس مرحلہ کے بعد افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہونا تھے ۔ جس میں افغانستان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کیا جانا تھا۔10مارچ تک قیدیوں کی رہائی کا مرحلہ کھٹائی میں پڑا رہنے کی وجہ وہ 15 قیدی تھے جنھیں افغان حکومت خطرناک قیدی شمار کرتی ہے ۔ افغان حکومت کے مطابق یہ 15قیدی افغانستان پر حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ افغان حکومت کے مطابق یہ 15قیدی طالبان کے اہم کمانڈرز ہیں۔ جبکہ طالبان اس بات کی نفی کرتے ہیں ۔ ان کے مطابق یہ 15قیدی ان کے ساتھی ہیں۔ افغان طالبان کے ترجمان کے مطابق ان15 قیدیوں کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ قیدی ان تمام طالبان قیدیوں کو جانتے اور شناخت رکھتے ہیں جن کی فہرست افغان حکومت کو دی گئی ہے ۔ افغان طالبان کے ترجمان کے مطابق ان 15 قیدیوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ افغان حکومت پس و پیش سے کام لے رہی ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ معاہدے پر عمل در آ مد ہو اور بر وقت امن کا قیام ہو سکے۔
اب 13اپریل سے قیدیوں کی رہائی کا کام شروع ہو چکا ہے اور حکومت نے طالبان کے 300قیدی رہا کر دیئے ہیں جن کے بدلے میں طالبان نے حکومت کے 20اہلکار رہا کیے ہیں۔افغان حکومت کے ان 20اہلکاروں کی رہائی کے وقت ان کی تصاویر بھی بنائی گئیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان اہلکاروں کو رہائی کے وقت پیسے بھی دیئے جا رہے ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے دیئے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کرونا وائرس کے خدشات کے پیشِ نظر کی گئی۔
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ آخر طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے ثمرات افغان حکومت کو بھی مل رہے ہیں یا نہیں۔ کیونکہ 10مارچ 2020ء سے پہلے قیدیوں کی رہائی کا معاملہ تا حال زیرِ التواہے اور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ابھی تک ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ طالبان معاہدہ افغان حکومت کے لیے سود مند ثابت نہیں ہو رہا۔ کیونکہ یہ معاہدہ طالبان اور امریکہ کے درمیان تھا نا کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرض کریں اگرطالبان اور افغان حکومت، دونوں فریق قیدیوں کی رہائی ممکن بناتے ہیں تو اس کے بعد افغانستان میں امن قائم ہو گا؟ جبکہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان صدارتی عہدے پر جنگ جاری ہے ۔ جب تک سیاسی بحران حل نہیں ہوتا تب تک افغانستان میں امن ممکن نہیں۔
میرے خیال میں افغانستان میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک افغانستان حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی امن معاہدہ طے نہیں پاتا۔ اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک افغانستان کے ہمسایہ ممالک پاکستان اور ایران کو اس میں شامل نہ کیا جائے۔ اگر امریکہ طالبان امن معاہدے میں پاکستان اور ایران کو شامل کیا جاتا تو شاید آج نتیجہ کچھ اور ہوتا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
نعیم کندوال کے کالمز
-
شکریہ فواد چوہدری
جمعرات 27 جنوری 2022
-
سی پیک کی اہمیت
جمعہ 5 نومبر 2021
-
آزادی اظہار رائے
بدھ 27 اکتوبر 2021
-
مسلم ڈیموکریٹک پارٹی
جمعہ 22 اکتوبر 2021
-
جلالپورنہر منصوبہ بے روزگاری کا خاتمہ کرے گا
بدھ 22 ستمبر 2021
-
پنڈ دادنخان ترقی کی راہ پرگامزن
جمعہ 10 ستمبر 2021
-
جہلم، پنڈ دادنخان! فواد آیا صواد آیا
پیر 30 اگست 2021
-
فیصل شاہ نے ساٹھ سے زائد ممالک میں پاکستان کا پرچم لہرایا
جمعرات 6 مئی 2021
نعیم کندوال کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.