پاکستان ایران تجارت

جمعہ 25 دسمبر 2020

Naeem Kandwal

نعیم کندوال

پاکستان ،ایران اور ترکی نے اسلا م آباد سے تہران اور پھر استنبول تک ریل سروس بحال کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔حالیہ معاہدے کے مطابق یہ کارگو ریل سروس اگلے سال سے باقاعدگی سے چلائی جائے گی۔یہ ریل سروس 2009ء میں شروع کی گئی تھی مگر رواں برس کوئی بھی ٹرین اِس روٹ پر نہ چل سکی جسکی وجہ سے ان تین ممالک نے اِس کی 2021ء میں بحالی پر اتفاق رائے کیا ہے ۔

2009ء میں اِس ٹرین سروس کا نام گولڈ ٹرین سروس رکھا گیا ، جس کے بعد سے وقتاََ فوقتاََ یہ ٹرین کسی نہ کسی صورت تین ممالک کے درمیان 2019ء تک فعال رہی لیکن 2020ء میں یہ سروس مکمل طور پر معطل رہی ۔اِس کا آغاز 2009ء میں پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری،ایران کے سابق صدر احمدی نژاد اور ترکی کے صدر عبداللہ گل کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے بعد ہوا۔

(جاری ہے)

اسلام آباد سے استنبول تک کی مسافت تقریباََ ساڑھے چھے ہزار کلو میٹر بنتی ہے۔
ایران ،پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے ۔پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات بہت پرانے ہیں ۔قیام پاکستان کے وقت ایران واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو دنیا کے نقشے پر تسلیم کیا۔دونوں ممالک کے درمیان مذہبی ،ثقافتی اور تجارتی تعلقات موجود ہیں ۔ایران 1979ء سے عالمی پا بندیوں کا شکا ر ہے ۔

عالمی پابندیوں کی وجہ سے دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت ایران کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے ۔کچھ دن پہلے بظاہر ایران پر سے تجارتی پابندیا ں کسی حد تک اٹھا لی گئی ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترس نے ممبر ممالک کو ایران کے ساتھ تجارت کرنے کاواضح اشارہ دیا۔اِس لحاظ سے استنبول ۔تہران۔اسلام آباد ریلوے سروس بہت اہم ہے ۔پاکستان اور ترکی جیسے ہمسایہ ممالک ایران کے ساتھ آزادانہ تجارت کر سکیں گے۔


رواں ہفتے پاکستان اور ایران کے درمیان گبد ریمدان بارڈر کراسنگ کا افتتاح کیا گیا۔اِس راہداری کا افتتاح وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوارمحترمہ زبیدہ جلال اور ایران کے وزیر برائے روڈ اور اربن ڈیویلپمنٹ محمد اسلامی نے کیا۔تقریب میں ایران کے صوبے بلوچستان و سیستان کے گورنر سید احمد علی مجتبیٰ ،ایران میں پاکستان کے سفیر رحیم حیات قریشی اور دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

پاکستان اور ایران کے درمیان یہ میر جاوہ تافتان کے بعد دوسری بارڈر کراسنگ ہے۔اِس موقع پر وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار محترمہ زبیدہ جلال نے کہا کہ کراسنگ سے دونوں ممالک کے لوگوں کی نقل و حمل اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کے لحاظ سے یہ ایک اہم سنگ میل ہے ۔
2013ء میں پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح کیا گیا ۔

پاکستان کے سابق صدر آصف علی زردار ی اور ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد نے اِس گیس پائپ لائن کا افتتاح کیا تھا ۔اِس منصوبے کی افتتاحی تقریب میں پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کے علاوہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر بھی موجود تھے ۔یہ تاریخی منصوبہ تھاجس کے تحت پاکستان کو پارس گیس فیلڈ کے ذخائر سے قدرتی گیس برآمد کی جانی تھی لیکن یہ تاریخی منصوبہ ایران پر عائد پابندیوں کی وجہ سے ڈھٹائی میں پڑ گیا ۔

یہ ایک تاریخی منصوبہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں موجود انرجی بحران کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے ۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے عالمی ادارے کے رکن تمام ممالک سے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو معمول کے مطابق آگے بڑھائیں ۔اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کا یہ بیان ایران اور اِس کے ہمسایہ ممالک خصوصاََ پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔پاکستان میں ہمیشہ سے توانائی بحران موجود رہا ہے۔ایران قدرتی گیس پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑاجبکہ تیل پیدا کرنے والا دنیا کا چھٹا یا ساتواں ملک ہے ۔پاکستان کے ایران کے ساتھ کئی تجارتی معاہدے ہیں ۔پاکستان ،ایران سے تیل اور گیس درآمد کر کے انرجی بحران سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :