تعلیمی سلسلہ بحال،سکولوں کی رونقیں لوٹ کر آگئیں

اتوار 4 اکتوبر 2020

 Nasir Alam

ناصرعالم

آخر کارسوات میں چھ ماہ سے زائد عرصہ تک بند رہنے کے بعد پرائمری سکولوں کو کھول دیا گیا اورطلبہ نے سکولوں کو رخ کرلیاجس کے سبب تعلیمی اداروں کی رونقیں بحال ہوگئیں،گورنمنٹ پرائمری سکولوں میں گہماگہمیاں اورچہل پہل نظر آنے لگی جس کی وجہ سے نہ صرف والدین نے سکھ کی سانس لی بلکہ اس اقدام پر عوام نے بھی اطمینان کا اظہارکیا، جیساکہ سب کو معلوم ہے کہ کرونا وباء کی وجہ سے تمام تر سرکاری اور نجی دفاتر کو بند کردیاگیاتھا اسی طرح سکولوں کوبھی تالے لگائے گئے جس کے نتیجے میں ہزاروں اساتذہ اور لاکھوں طلبہ گھربیٹھ گئے، سکولوں کی بندش کا سلسلہ اتنا طویل یعنی چھ ماہ پر محیط ہوگا یہ کسی کو معلوم نہیں تھا بلکہ لوگوں کا خیال تھاکہ چند روزیا کچھ ہفتے بعد سکول کھل جائیں گے مگرکرونا کے سبب نہ صرف تعلیمی سرگرمیاں ماند پڑگئیں بلکہ کاروبار زندگی کا پہیہ بھی رک گیا،کرونا،لاک ڈاؤن اور مہنگائی نے مل کر عوام کو شدید ذہنی کرب،کوفت اور کشمکش میں مبتلا رکھا، مزدور کار اورمحنت کش طبقے کے گھروں کے چولہے زیادہ تر بجھے رہیں،سفید پوش طبقہ پریشان،کاروباری لوگ حیران اوربازار سنسان رہیں،عجیب سی صورتحال تھی اس قدرعجیب کہ جس نے پوری دنیا میں ایک طرح سے ہل چل مچاکر رکھ دی،ہر چہرے پر ہوائیاں اڑتی نظر آرہی تھیں،لوگ ایک دوسرے سے ڈرتے تھے،ہاتھ ملانا تو درکنار لوگوں نے جنازوں میں شرکت کرنا بھی چھوڑدیابلکہ بیشتر لوگ گھروں میں محصور ہوگئے عجیب صورتحال یہ بھی تھی کہ گھر کے افراد بھی ایک دوسرے کے قریب جانے سے کتراتے رہیں اس صورتحال نے لوگوں کے مابین فاصلے پیدا کردئے اورفاصلے بھی ایسے کہ قریب رہتے ہوئے بھی لوگ میل ملاپ نہیں رکھتے تھے،اس دوران پوری دنیا کنفیوژن کا شکار رہی جبکہ کرونا کے حوالے سے گاہے گاہے مختلف افواہیں بھی زیر گردش رہیں،کسی نے اسے مذاق سمجھا،کسی نے سازش،کسی نے جھوٹ،کسی نے ڈرامہ اور کسی نے کچھ کسی نے کچھ سمجھامگر ان سب میں ایک بات قدرمشترک تھی جو واضح طورپر نظر آرہی تھی اور وہ یہ تھی کہ یہ سب لوگ خوفزدہ تھے،ہاتھ ملانا،مصافحہ کرنا،بغلگیر ہونا تو درکنار لوگ ایک دوسرے کے قریب جانے سے بھی خوفزدہ تھے،کسی کو کھانسی یا بخار ہو تو اس سے دور دور رہتے بلکہ بھاگتے تھے،اورتو اور لوگ علاج معالجہ کیلئے ہسپتال جانے سے بھی کترانے لگے،آخر یہ کیا ماجرہ ہے؟جہاں کہیں کسی مریض میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوجاتی تو محکمہ صحت اور انتظامیہ ایک مریض کی وجہ سے پورے محلے کو سیل کرتے جسے کورنٹائن کا نام دیاگیاجو ایک طرح کا حبس بے جا تھا جو وقت کی ضرورت اور حالات کا تقاضا بن گیا تھاجبکہ متاثرہ گھر کے آس پاس رہنے والوں کی ٹیسٹ کرانے کیلئے نمونے حاصل کئے جاتے تھے اور رزلٹ آنے تک ان بچاروں کو بھی کورنٹائن کیا جاتا،اس دوران لاتعدادلوگ متاثر ہوئے اور لاتعدادلوگ موت کے منہ میں چلے گئے فضاء پر ایک دہشت اوروحشت طاری رہی،کوئی اپنے پیاروں کے جنازے کو کاندھاتک نہیں سے سکتا تھاایس او پیز کے تحت میت کو سپردخاک کردیا جاتا،لوگ چند دن بذریعہ فون تعزیت کرتے اور بات ختم،اب بھی میڈیا کے ذریعے اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ دنیاکے بعض ممالک میں پھرسے اس وباء نے سراٹھالیا ہے اس میں کتنی حقیقت ہے اس کا کوئی پتہ نہیں چلا تاہم جہاں جہاں اس وباء کی شدت کم یاختم ہوئی ہے وہاں پر زندگی کا پہیہ ایک بار پھر رواں دواں ہوگیا ہے،کاروبار زندگی بحال ہوااورخصوصاََ وادی سوات میں سیاحتی اورتعلیمی سرگرمیاں پھر سے شروع ہوگئیں،جن چہروں پر کچھ عرصہ قبل ہوائیاں اڑتی نظر آرہی تھیں ان چہروں پر قدرے اطمینان نظر آنے لگا،سیاحتی مقامات کی رونقیں اور بازاروں کی چہل پہل بحال ہوگئیں،پرائیویٹ سکول پہلے سے کھل گئے تھے اوربعدازاں گورنمنٹ ہائیر،ہائی اورمڈل سکولوں کو بھی کھول دیا گیا جبکہ اب حال ہی میں گورنمنٹ پرائمری سکول بھی کھل گئے جس کے بعد طلبہ نے سکول جانا شروع کردیا تاہم کرونا وباء کے سبب ان کا بہت سارا وقت ضائع ہوچکاہے اب طلبہ کے ذہنوں اور توجہ کو تعلیم کی طرف ایک بار پھر مبذول کرانے کیلئے اساتذہ پر پہلے سے زیادہ ذمہ داری آئی ہے کیونکہ وباء کی وجہ سے جہاں عام لوگ پریشانی میں مبتلا رہیں وہاں چھٹیوں کے دوران طلبہ بھی خوفزدہ اور کتابوں سے دور رہیں،اب ان کے ذہنوں کو دوبار تعلیم کی طرف لانے میں کچھ وقت لگے گا تاہم اساتذہ اس ضمن میں اہم کرداراداکرسکتے ہیں، والدین کوبھی چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے ذہنوں سے کرونا کا خوف نکالنے اور انہیں تعلیم کی طرف راغب کرنے میں کرداراداکریں کیونکہ یہ طلبہ ہی ہیں جن سے قوم کی متعددامیدیں وابستہ ہیں،قوم پرامید ہے کہ آج کے یہ بچے تعلیم حاصل کرکے کل ملک وقوم کی تعمیر وترقی اورخوشحالی میں کرداراداکریں گے لہٰذہ ان طلبہ کو قوم کی امیدوں پر پورا اتارنے کیلئے اساتذہ،الدین اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگااوراس مقصد کیلئے زیادہ سے زیادہ وقت دینا ہوگا،دستیاب وسائل اور صلاحیتیں بروئے کار لانا ہوں گے تاکہ آج کے یہ بچے بڑے ہوکرکل حقیقی معنوں میں قوم کی امیدوں کی ترجمانی کرسکیں۔

   

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :