تحریک پاکستان کیلئے دی جانے والی قربانیاں،آزادی کے تقاضے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

ہفتہ 15 اگست 2020

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

پاکستان اپنی نوعیت کی واحد مملکت ہے جس کے حصول کے لئے بلا شبہ اتنی قربانیاں دی گئیں جن کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔اقوام عالم کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو اس نوعیت کی تحریک آزادی کا تذکرہ کہیں اور نہیں ملتا۔تحریک آزادی پاکستان میں لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اپنے گھر بار لٹا کر اس وطن عزیز کو حاصل کیا۔

یہ بات محض مبالغہ آرائی پر مبنی نہیں ہے بلکہ تاریخی حقائق اور دستاویزات اس امر کی گواہی دیتے ہیں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے وہ قربانی پیش کی کہ جو اپنی مثال آپ ہے۔ہماری موجودہ نسل اس امر سے آگاہ نہیں کہ برصغیر کی تقسیم کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان جو آبادی کا تبادلہ ہوا اس کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کہی جا سکتی ہے۔

(جاری ہے)

۔اس ھجرت کے دوران لاکھوں لوگ مارے گئے یا لاپتہ ہو گئے۔اس امر سے ہماری نسل بالکل بھی آگاہ نہیں۔جدید دور میں بھی انسانیت پر جتنے بھی بحران آئے ان بحرانوں کے دوران اتنے بڑے پیمانے پر نہ تو انسانی ہجرت دیکھنے کو نہیں ملی اور نہ اس پیمانے پر قتل و غار ت گری۔اسی ھجرت کے دوران جن مصائب و آلام کا سامنا کیا گیا انکا تزکرہ یا تو لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہے یا پھر سرکاری دستاویزات کے ریکارڈ میں۔

اس مضمون کی تیاری کے دوران کچھ ایسا ریکارڈ دیکھنے کا موقع ملا جو اس سے پہلے بہت کم مضامین یا کالمز میں شائع ہوا۔سرکار کے ریکارڈ میں موجود اعداد و شمار کے مطابق 1951 میں دونوں ممالک نے اعداد و شمار اکٹھے کرکے جاری کیے۔جس کے مطابق تقریبا ڈیڑھ کروڑ لوگوں نے اپنے گھروں سے ہجرت کی۔ان دستاویزات کے مطابق 73 لاکھ لوگ بھارت سے پاکستان ھجرت کر کے آئے۔

اور 65 لاکھ لوگ انڈیا سے مغربی پاکستان اور تقریبا 8 لاکھ لوگوں نے انڈیا سے مشرقی پاکستان کی طرف ہجرت کی۔پاکستان سے بھارت ہجرت کرنے والوں کی تعداد بھی کم و بیش 72 لاکھ افراد پر مشتمل تھی۔مغربی پاکستان سے بھارت جانے والوں میں 47 لاکھ اور مشرقی پاکستان سے بھارت جانے والوں کی تعداد 20 لاکھ لوگ شامل تھی۔بھارتی پنجاب اور راجپوتوں کے علاقوں سے سب سے زیادہ ھجرت کی گئی۔

مہاجرین کی کل تعداد کا 80 فیصد صرف بھارتی پنجاب سے پاکستان آیا۔دونوں ممالک کی مشترکہ رپورٹ جاری ہونے کے بعد بھی ہجرت کا سلسلہ جاری رہا۔1951 سے لے کر 1956تک تقریبا ساڑھے چھ لاکھ مسلمان انڈیا سے ہجرت کرکے مغربی پاکستان آئے۔جبکہ 1961 میں یہ تعداد آٹھ لاکھ تک ہو چکی تھی۔ایک محتاط اندازے کے مطابق 13 لاکھ مسلمان ایسے ہیں جو ہجرت کے دوران لاپتا ہو گئے۔

یہ افراد مشرقی پنجاب سے چلے لیکن پاکستان پہنچنے کا ریکارڈ دستیاب نہیں۔اور غالب امکان یہی ہے کہ یہ سب لوگ قتل کر دیے گئے۔ہوسکتا ہے مارے جانے والے افراد کی تعداد میں کچھ مبالغہ بھی ہو۔تاہم اس وقت کے مغربی پاکستان کے گورنر سر فرانسس نے سرکاری طور پر یہ تعداد پانچ لاکھ بتائی تھی۔اس وقت کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 2 لاکھ مسلمانوں کی شہادت کا اعتراف کیا تھا۔

جبکہ کراچی میں موجود برطانوی ہائی کمشنر کے مطابق مجموعی طور پر 8 لاکھ افراد شہید کیے گئے۔اس حوالے سے بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا ایک خط بھی قابل ذکر ہے جس میں بتایا گیا کہ جتنے ہندو اور سکھ پاکستان میں مارے گئے اس سے دوگنی تعداد میں مسلمان بھارت میں مارے جا چکے ہیں۔ہمارے ملک میں اب بھی ایسی خواتین محدود تعداد میں زندہ ہیں جنہوں نے ھجرت کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔

مختلف کتب میں ان کے واقعات کثرت سے موجود ہیں۔امرتسر سے کر لاہور تک راستے میں تمام کنویں مسلمان خواتین کی لاشوں سے بھر چکے تھے۔اور امرتسر سے آنے والی اس ریل گاڑی کی آمد کے مناظر کون بھول سکتا ہے کہ جب وہ ٹرین لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچی ریل کے ڈبوں سے زندہ انسانوں کے بجائے انسانوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔کتنی ہی مسلمان خواتین ایسی تھیں جن کی بیٹیاں اور بہنیں ہندوؤں کے قبضے میں رہے گی اور انہیں کے گھر میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئی۔

آزادی کی یہ داستان صرف خونچکاں ہی نہیں بلکہ دلخراش بھی ہے۔ سمجھتا ہوں تحریک پاکستان میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے حالات کے مطابق بڑھ چڑھ کر قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا۔ کتنے ہی شیر خوار بچے ماؤں کی چھاتیوں سے جدا کر کے قتل کر دیے گئے۔کتنی عورتوں کی سہاگ لوٹ لیے گئے۔کتنی ماؤں کے جوان بیٹے کی موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔

کتنے کڑیل جوان آزادی کی تلاش میں زمین کی تہہ میں چلے گئے۔گاؤں کے گاؤں اجاڑ دیے گئے۔بستیوں کی بستیاں تباہ و برباد کر دی گئی۔انسانیت نے وحشت کا وہ ناچ ناچا کہ خود وحشت بھی شرمانے لگی۔کتنے ہی ایسے والدین کے تذکرے موجود ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی جوان بچیوں کو کنوؤں میں دھکیلب دیا کہ وہ ہندوؤں کی درندگی کا نشانہ نہ بن جائیں۔۔

کتنی ہی جو ان بچیاں ایسی تھیں جنہوں نے خوشی سے موت کو گلے لگا لیا کہ اسلام دشمن اور پاکستان دشمن ان کو اٹھا کر نہ لے جائیں۔۔کروڑوں لوگ اپنے گھروں سے نکلے۔اپنی جان لٹائیں۔آزادی کی تلاش میں کتنے ہی امیر لوگ، فقیر بن گئے۔کتنے ہی زمیندار دار، گندم کے دانوں کے محتاج ہوگئے۔کتنے سرمایہ دار پائی پائی کو ترسنے لگے۔پاکستان کی آزادی کی تاریخ کا سفر انسانی خون سے لتھڑا ہوا ہے۔

اس کی بنیادوں میں بچوں اور بچیوں کا اتنا خون شامل ہے کہ اسکی پاکیزگی اور طہارت کی طاقت نے وطن عزیز کو استحکام عطا کیا ہوا ہے۔عوام کے ساتھ ساتھ علماء و مشائخ نے بھی قربانیوں کی بے نظیر مثال قائم کی۔تاجروں نے بھی قربانی کے وہ مناظر پیش کیے جن پر تاریخ فخر کرتی ہے۔
قربانیوں کے ثمرات کہاں گیے۔    آپ پاکستان کے آزادی کو 70 سال سے زیادہ عرصہ ہونے کو ہے اس موقع پر کھڑے ہوکر ہم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا ان قربانیوں کے ثمرات سمیٹنے میں ہم کامیاب ہوسکے؟کیا موجودہ نسل کو ان قربانیوں کا اندازہ ہے؟کیا ان عظیم قربانیوں کے مطابق ہم اپنے وطن عزیز کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟بقول فیض
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
کیا آزادی کا تقاضا یہ تھا کہ ہم یہاں ایک الگ ملک بنا کر بیٹھ جائیں؟کیا آزادی کا تقاضا یہ تھا کہ ہم صرف اپنے کاروبار کو ترقی دیں؟کیا آزادی کا تقاضا یہ تھا ہم اپنے ذاتی مفادات ترجیح دیتے رہیں؟کیا ہم نے ہندوؤں سے آزادی اس لئے حاصل کی تھی کہ ہم یہاں پر آقاؤں کی ایک نئی فصل اگادیں؟کیا نیا اسلامی وطن اس لیے حاصل کیا تھا کہ جہاں پر بے راہ روی کا کلچر فروغ پائے۔

؟نہیں میرے دوستوں ایسا بالکل نہیں۔آزادی کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہم ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے۔آزادی کا تقاضا تو یہ تھا ہم اپنے پاک وطن کی ترقی کے لئے خون پسینہ ایک کر دیتے آزادی کا تقاضا تو یہ تھا کیا آپ نے ذاتی کردار کی تعمیر سے ایک بہترین معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کرتے،ان بے شمار قربانیوں کا تقاضا یہ تھا کہ ہم ایک صحیح اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی کوشش کرتے،یہ قربانی ہم سے تقاضا کرتی تھیں یہاں سب کے لئے ایک نصاب تعلیم ہوتا،ان قربانیوں کا تقاضا یہ تھا کہ قانون سب کے لئے برابر ہوتا،ان قربانیوں کا مقصد یہ تھا کے سب لوگوں کے لئے کاروبار کے مواقع یکساں ہوتے،آزادی پاکستان کا تقاضا یہ تھا کے سب ملکر یہاں پر نظام مصطفی کے نفاذ کی کوشش کرتے۔

امرتسر کے کنویں میں کود جانے والی فاطمہ اور زینب پھر وہی ہم سے تقاضا کرتی ہیں کہ یہاں کی خواتین سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کے اسوہ پر عمل کریں۔پاکستان کوئی عام ریاست نہیں،اس کے شہری کوئی عام شہری نہیں،یہ زمین دوسروں کی طرح عام زمین نہیں،بقول اقبال
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ہم وطن عزیز کو اس کے تقاضوں کے مطابق کیوں نہیں چلا سکے؟یہ بنیادی سوال ہے جو ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں کلبلا رہا ہے۔

؟کیا اپنے وطن کی ترقی کے لئے کوشش کرنا دین کا حصہ نہیں؟کیا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شہر کی بہتری اور اپنے ملک کی ترقی کے لئے عملی اقدامات نہیں کیے؟کیا سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اپنی ریاست کی ترقی کے لئے دن رات ایک نہیں کیا؟کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وطن سے محبت کو دین کا حصہ قرار نہیں دیا؟اب میں خوابوں کی دنیا سے نکلنا ہوگا،ہمیں اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے اپنے وطن کی ترقی کے لئے کوشش کرنا ہوگی،ہمیں ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینا ہو گی،ہمیں ایک ذمہ دار شہری کا طرز عمل اختیار کرنا ہوگا،ہمیں اپنے ذاتی کردار کی تعمیر کرنا ہوگی،اپنے ذاتی کردار سے بہترین فلاحی معاشرہ تشکیل دینا ہو گا،ورنہ آنے والی نسلیں ہمارا گریبان پکڑیں گی،ہمارا مستقبل ہماری آنکھوں کے سامنے کھڑا ہے,اپنے مستقبل کو ماضی کے متعلق آگاہی دے کر روشن مستقبل کی جانب گامزن کرنا ہوگا۔

اگر ہم ایسا نہ کرسکے تم نہ صرف ان کو بانیوں کے ساتھ غداری کے مرتکب ہوں گے بلکہ اپنے دین سے بھی انحراف کرنے والوں میں شامل ہوں گے۔بے شک وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے،اپنے خطے کی حفاظت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،اپنے وطن کو ترقی دینے کے لیے محنت کرنا صحابہ کرام کا شیوہ ہے،آئیے یوم آزادی کے موقع پر ہم کے عہد کریں کہ ہم اپنی دھرتی ماں کی مانگ کو اپنے بہترین عمل کے سیندور سے بھر دیں گے۔

اس کے دامن کو خوشیوں سے مالامال کریں گے۔اس کی ترقی کے لئے بھرپور محنت کریں گے۔اپنے ذاتی کردار کو بلند رکھیں گے۔اپنی نوجوان نسل کو ماضی کی قربانیوں سے آگاہ کریں گے۔یہ سب اعمال کرنے کے ساتھ ہی آزادی کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں۔
پاکستان پائندہ باد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :