
ممتاز بھٹو۔ایک وضع دار شخصیت
بدھ 28 جولائی 2021

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ
(جاری ہے)
پاکستان کی سیاست پر کئی دہائیوں تک راج کرنے والے نمایاں سیاست دان، سابق گورنر سندھ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے کزن ممتاز بھٹو 87 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ممتاز بھٹو نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا جبکہ بیرسٹر کی ڈگری لندن کی یونیورسٹی آف لنکن سے لی ۔
ممتاز بھٹو کی زندگی کے شب و روز
ممتاز بھٹو 29 نومبر، 1933 کو سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے گاؤں پیر بخش بھٹو میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نواب نبی بخش خان بھٹو برطانوی دور حکومت میں قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔
تعلیم و تربیت۔
انہوں نے پرائمری تعلیم اپنے گاؤں پیر بخش بھٹو میں حاصل کی۔ اس کے بعد وہ بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے سیاحتی مقام مسوری چلے گئے جہاں انہوں نے مزید تعلیم حاصل کی۔ممتاز بھٹو نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا جبکہ بیرسٹر کی ڈگری لندن کی یونیورسٹی آف لنکن سے لی۔
عملی سیاست کا اغاز
ممتاز بھٹو پہلی بار 32 سال عمر میں قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ بعد میں ان کے کزن ذوالفقار علی بھٹو نے 30 مارچ، 1967 کو جب نئی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بنانے کا اعلان کیا تو وہ نہ صرف اس نئی پارٹی کے بانی رکن بنے بلکہ پرنسپل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بھی بنے۔1970 کے عام انتخابات کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم پاکستان بن گئے تو انہوں نے ممتازبھٹو کو 24 دسمبر، 1971 کو گورنر سندھ نامزد کردیا جبکہ یکم مئی، 1972 کو وہ سندھ کے آٹھویں وزیر اعلیٰ بنے۔
سندھی زبان کو لازمی قرار دینے کا بل
ممتاز بھٹو سندھی نیشنلزم کا قائل تھے۔وہ اپنی زبان اور ثقافت کا ہر فورم پر دفاع کرتے تھے۔یہء وجہ تھی کہ وزیراعلیٰ سندھ کے منصب کا حلف لینے کے چند ماہ بعد تین جولائی، 1972 کو ان کی حکومت نے سندھ اسمبلی میں صوبے کی سرکاری (دفتری) زبان صرف سندھی کرنے سے متعلق ایک بل جمع کروایا۔وہ ایک اہم حقیقت کو فراموش کر بیٹھے کہ سندھ محض ایک لسانی اکائی نہیں بلکہ کثیر لسانی یونٹ ہے۔اس میں مختلف زبانیں بولنے والے لوگ آباد ہیں۔اور یہی اس کا حسن ہے۔اس بل کا پورے سندھ خصوصا شہری علاقوں میں سخت رد عمل ہوا۔اس بل کے جمع ہونے کے بعد صوبائی دارالحکومت کراچی میں پرتشدد ہنگامے شروع ہو گئے جو کئی ماہ تک جاری رہے۔اس ہنگامہ آرائی کے دوران روزنامہ جنگ نے رئیس امروہوی کی نظم ’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘ کو پہلے صحفے پر لیڈ کے طور پر چھاپا۔ہنگامہ آرائی ختم ہونے کے بعد ایک تقریر میں ممتاز بھٹو نے کہا کہ اگر خدا انہیں 10 سر بھی دیتا تو وہ ان سب کو سندھی زبان کے لیے قربان کر دیتے۔ سندھ میں کچھ لوگ انہیں 'ڈہیسر' یعنی 10 سروں والے نام سے بھی پُکارتے تھے۔
شدید ہنگامہ آرائی کے باجود ممتاز بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اکثریت کی بنیاد پر صوبائی اسمبلی سے بل منظور کروا لیا۔بل کی منظوری کے بعد سندھی زبان کو صوبے کی واحد سرکاری (دفتری) زبان قرار دیا گیا اور تمام سرکاری اور عدالتی امور سندھی زبان میں چلانے سمیت صوبے کے تعلیمی اداروں میں سندھی زبان لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جانے لگی۔
مارچ 1977 میں ممتاز بھٹو قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور بعد میں وفاقی وزیر بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں 1977 میں پیپلزپارٹی سندھ کا صدر نامزد کیا۔سابق فوجی حکمران ضیا الحق کی حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا تو احتجاج پر انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا اور بعد میں جلاوطن کردیا گیا۔بھٹو کی پھانسی کے کچھ عرصے بعد پیپلز پارٹی سے ان کی راہیں الگ ہوگئیں۔ جلاوطنی کے دوران انہوں نے لندن میں 'سندھی، بلوچ، پشتون فرنٹ' کے نام سے اتحاد قائم کر لیا۔بے نظیر بھٹوکے پہلے دورحکومت کے دوران 1989 میں ممتاز بھٹو نے وطن واپسی پرایک نئی جماعت سندھ نیشنل فرنٹ(ایس این ایف) کی بنیاد رکھی۔
وہ 1993 ایس این ایف کی ٹکٹ پر رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے اور 1996 میں انہیں نگران وزیر اعلیٰ سندھ نامزد کیا گیا۔جنوری 2009 میں ممتاز بھٹو کو ایک سندھی اخبار پر مبینہ حملے کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے اس مقدمے میں عدالت سے ضمانت کروا لی۔ بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا۔2013 کے الیکشن سے پہلے ممتاز علی بھٹو نے اپنی پارٹی سندھ نیشنل فرنٹ کو پاکستان مسلم لیگ ن میں ضم کردیا مگر
اس کی قیادت سے اختلاف کے بعد انہوں نے الگ ہو کر سندھ نیشنل فرنٹ کو دوبارہ بحال کردیا۔2017 میں انہوں نے ایک بار پھر اپنی پارٹی سندھ نیشنل فرنٹ کو پاکستان تحریک انصاف میں ضم کردیا مگر یہ اتحاد بھی دیر تک نہ چل سکا۔
وفات
طویل عمر کی وجہ سے انہیں متعدد بیماریاں لاحق ہوگیں جسکی وجہ سے وہ کافی عرصہ سے صاحب فراش تھے۔ان بیماریوں کا مقابلہ کرتے کرتے وہ 18جولای 2021 کو اللہ کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوگہے۔مرحوم نے سوگواران میں ایک بیوہ اور 2 بیٹوں سمیت 4 بچے چھوڑے ہیں، ان کی پہلی بیوی کا انتقال ہوچکا ہے، جن سے ممتاز بھٹو کا ایک بیٹا امیر بخش بھٹو ہے جو اب پی ٹی آئی کے رہنما بھی ہیں۔
ممتاز بھٹو کی دوسری اہلیہ سے ان کے دوسرے بیٹے علی حیدر بھٹو ہیں جو ایک صحافی ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ کے کالمز
-
آن لائن احتجاجی تحریک
جمعرات 17 فروری 2022
-
توجہ کا طالب
جمعرات 10 فروری 2022
-
یوم یکجہتی کشمیر
ہفتہ 5 فروری 2022
-
فوجداری قوانین: مجوزہ ترامیم اور حقائق
جمعرات 3 فروری 2022
-
سانحہ مری۔مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے؟
پیر 10 جنوری 2022
-
جمہوری روایات کو لاحق خطرات
بدھ 5 جنوری 2022
-
مولانا آرہے ہیں؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
سانحہ اے پی ایس۔ جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں
جمعہ 17 دسمبر 2021
پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.