احتساب آخر کب؟

منگل 9 اپریل 2019

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

پاکستان میں احتساب کی تاریخ نہایت کمزور ہے۔اس کی گونج ہم اوئل جوانی سے سنتے اور چال دیکھتے آ رہے ہیں۔دو مرتبہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت اور تین مرتبہ میاں محمد نواز شریف کی حکومت اس الزام میں برطرف ہو چکی ہیں۔بلکہ جب فاروق احمد لغاری نے بی بی کی حکومت کو 58/2 بی کے ذریعے معزول کیا تو یہ نعرہ بھی لگا کہ "پہلے احتساب،پھر انتخاب" مگر احتساب ہر مرتبہ این۔

ار۔او کے،نظریہ ضرورت یا ملک کے وسیع تر مفاد کے حسین اور دلفریب نعروں میں گم ہو گیا"۔
پھرپہنچی خاک وہیں،جہاں کا خمیر تھا"۔اجلے دامن والے نئی شیروانیوں کے ساتھ پھر آ کے بیٹھ گئے۔عوام بے چارے بھول گئے کیونکہ ان کا مسلہ روٹی اور پانی سے آ گے جانے ہی نہیں دیا گیا۔زرداری صاحب نے تو این،ار،او کے ساتھ معافی او سیاسی انتقام کا نواز شریف کے دستخط سے بیان حلفی بھی لے لیا۔

(جاری ہے)

چارٹر آ ف ڈیمو کریسی میں یہ طے کر لیا کہ کبھی تم،کبھی ہم۔شرط یہ ہے کہ"گم سم" باقی کسی سیاسی قوت کو اس چارٹر کی ہوا نہیں لگنے دی۔ان کو حصہ بقدر جثہ پر راضی کر لیا۔ترقی اور کرپشن کا سلسلہ اسی ملاپ میں آ گے بڑھنے لگا،ایک طرف پاناما خدا کی پکڑ یہ میں نہیں بلکہ ممنون حسین نے کہا،بن کر نازل ہو گیا اور دوسری طرف 60 فیصد سے زیادہ بچے جوانی کے حد پار کر گئے۔

جن کو یہ دونوں سمجھ نہیں سکے۔ان کو پہلے سے موجود عمران خان نے کرپشن کے خلاف نیا منشور دیا۔
اگرچہ ن لیگ اور بلاول بھٹو نے پورا زور لگایا۔ مگر ان نوجوانوں کی نفسیات،ووٹ کی قوت کو وہ سمجھ نہ سکے۔عمران خان کے جوش و ولولے نے انہیں خوب مرغوب کر لیا۔عمران خان کو اس میں کامیابی ضرور ملی مگر وہ تیس سال سے بچھائی گئی قانونی۔بیوروکریسی اور سیاست کے گر کی "بارودی سرنگوں" کو وہ جانچ نہیں سکا۔

دوسری غلطی یا مجبوری یہ تھی کہ اسی نظام کی پیداوار افراد کا عمران خان کے ساتھ مل جانا تھا۔احتساب کمزور اداروں اور قانون سے آ ج پھر مضبوط سفینے کے ساتھ لٹک رہا ہے ، بچ کے کنارے پہنچ جائے گا یا بیچ سمندر میں ڈوب جائے گا!اسی کشمکش میں مبتلا ہے،عمران حکومت کا کسی ادارے پر دباوٴ یا رکاوٹ نہیں ہے۔
وہ کرپشن کے خلاف مینڈیٹ لے کر آ یا ہے۔

اس پر بولنا کیسے بند کر دے۔نوجوان عمران خان کو معاف نہیں کریں گے۔ایک خبر یہ بھی کہ یہ نظام بھی لپیٹ دیا جائے جو کہیں نہ کہیں رکاوٹ پیدا کرتا رہتا ہے۔اس کے لئے بھی وہ تیار ہے۔"مگر تمھارا کیا ھو گا کالیا" صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی۔۔ عوام کو بنیادی ضرورتوں اور حقوق کی پاسداری چاہیے۔جس میں ابھی تک حکومت کوئی واضح کا میابی حاصلِ نہیں کرسکی۔

احتساب اور قانون کی آ نکھ مچولی جاری ہے۔البتہ عمران خان رکاوٹ ہے نہ ذاتی عداوت! کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ احتساب کے یک نکاتی ایجنڈا پر عوامی ریفرنڈم کروایا جائے۔جیسے یورپی یونین کے ساتھ الحاق پر برطانیہ میں ریفرنڈم کروایا گیا۔البتہ دھند ہے کہ سفر نہیں کر نے دیتی کہ مصداق احتساب کی بیل کب مونڈے چڑے گی۔بے تابی دل بڑھ گئی ہے!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :