دہلی اور اسلام آباد۔۔کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟

ہفتہ 2 نومبر 2019

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

مودی سرکار اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے 31 اکتوبر کو ریاست جموں وکشمیر کی تقسیم پر براہ راست عمل کی کوشش کر رہی ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم پر مبنی سات دہائیوں کا کھیل کرفیو اور
 تحریر ،تقریر،علاج،تعلیم آور نقل و حرکت پر پابندی کی صورت میں جاری ھے۔عمران کی آواز پر اک عالم ھلا تھا کہ ایک "عالم" اسی 31 اکتوبر کو مارچ لے کر اسلام آباد پہنچ گیا،مولانا صاحب سے یہ پوچھنا تو بنتا ہے کہ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟ کیا سیاست میں سچ کی یا ماضی کے آپ ھی کہ فرمانوں کی کوئی اہمیت نہیں ھے۔

جب آپ 2014 کو مارچ دھرنوں اور جتھوں کے ذریعے حکومت ختم کرنے کو برا بھلا کہتے تھے اور زور تقریر میں کہہ رہے تھے کہ حکومت ان کے خلاف ایکشن لے۔فرق صرف یہ تھا کہ آپ اسمبلی اور حکومت میں تھے۔

(جاری ہے)

اپ نے ہی ھمیں بتایا اور پڑھایا تھا کہ عورت کی حکمرانی حرام ہے پھر آپ اسی حکومت میں شامل رہے پرویز مشرف کو سب سے زیادہ جگہ اور موقع آپ نے دیا،زرداری صاحب کی حکومت میں آپ شامل اور ناقد رہے پھر میاں نواز شریف کے سامنے اپنا عمامہ پیش کر دیا' کیا اتنے تضادات آور وہ بھی ایک عالم کے اندر اب کی بار تو حد ھو گئی جوں جوں مودی کشمیر پر مظالم میں آگے بڑھ رہا ہے توں توں آپ اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے ہیں! اس کو کیا نام دیا جائے ھمارے ایک کہنہ مشق صحافی کالم نگار انصار عباسی صاحب سیاست میں مذھبی کارڈ کا طعنہ دینے والوں کو مجرم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مذھبی کارڈ سیاست میں استعمال کرنا قابل فخر ھے جو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں وہ مذھب دشمن ھیں! ان سے یہ پوچھنا تھا کہ کیا جھوٹ،دوغلہ پن،ذاتی مفادات کے لیے مذھب کی چھتری کے نیچے آنا جائز ہے یا اپنے ھر غلط عمل کو مذہب سے ثابت کرنے کی کوشش کرنا درست ہے؟ بھلے وقتوں میں میں نے ایک مذہبی رہنما سے لاؤ ولشکر والی سیکورٹی کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ فرمایا کہ جناب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی 27 گارڈ رکھے ھوئے تھے میں تو سنت کی پیروی کر رہا ہوں! اب بتائیں اس کو کیا سمجھا جائے میری ناقص علمی یا مولانا کی فراست؟ آپ قیام پاکستان سے لیکر اب تک مذھبی سیاست کا جائزہ لیں تو مایوسی ھی ھو گی۔

عمل جو پہلے آپ نے کیا ھو اس کو سچائی کا پیمانہ سمجھا جاتا ھے حضور نے دعوت اسلام کی صدا بلند کی تو فرمایا لوگو! گزشتہ چالیس سال آپ کے درمیان گزارے ھیں جس پر ھر شخص نے آپ کو صادق اور امین قرار دیا آج کوئی ایک لیڈر یا مذھبی رہنما اس سنت کی پیروی کیوں نہیں کرتا وہ بھی عالم دین ھو تو اس کی کتنی زمہ داری بنتی ہے۔اج سیاست کا کوئی بھی اصول نہیں ہے لبرل،سیکولر،طاقت کا سر چشمہ عوام کو سمجھنے والے بھی کس نظریہ کے تحت مولانا فضل الرحمن کے کنٹینر میں سوار ھوں گے کیا اس لیے کہ گرفتار رہنما رہا ھو جائیں پھر مولانا کی بقا میں آپ تو فنا ھو جائیں گے۔

پی این اے یا نظام مصطفی تحریک کے راز کھلے تھے تو سی آئی اے کا نام اور مال نکلا تھا کیا آج مال کہیں مودی سرکار کا تو نہیں۔ھم آپ پر شک یا الزام کا اظہار بالکل نہیں کرنا چاہ رہے لیکن دہلی کی حرکات اور اسلام آباد میں آپ کی سکنات  ایک ھی وقت ھونا شک میں ڈال دیتا ہے۔کیا ھی اچھا ھوتا کہ اس مارچ کا رخ مودی کی طرف ھوتا تو آپ کی سیاست بھی زندہ اور کشمیری عوام کے حوصلے بھی بلند ھو جاتے۔

اب دو فیصدی ووٹ رکھنے والا کروڑوں ووٹ لینے والی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت آپ کریں گے شو آپ کا کامیاب کام وہ اپنے نکلوا لیں گے کچھ اسلحہ بردار اور ڈنڈا بردار بھی آپ کے ھمراہ ھیں اسلام آباد میں غیر ملکی مہمان اور سفراء پریشان ھیں پاکستان ایف اے ٹی ایف سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے آپ واپس نہ دھکیل دیں خطرہ اور شک تو بنتا ھے نا! کراچی سے آپ چلے پنجاب بھی فتح کرلیا مگر نہ پیپلز پارٹی کے سپورٹرز اور نہ ن لیگ کے کارکنان نظر آئے دوسری اھم بات ھے کہ مدرسے کے طالب علموں کے علاؤہ عام افراد ابھی تک مارچ سے دور رہے ھیں۔حکومت دھرنوں سے ختم نہیں ہو سکتی باقی آپ جلسہ میں اچھا منظر دکھائیں شاید حالات بہتر ھوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :