بنارسی ٹھگ۔۔۔۔۔۔!!!

منگل 27 اکتوبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

حکومت کے لوگ زیادتی کر رہے ہیں کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو "بنارسی ٹھگ"کہتے ہیں وہ تو "بڑے بڑے"جلسے کر کے عوام کو راستہ دکھا رہے ہیں، ووٹ کو عزت دے رہے ہیں، کیا ھوا اگر چالیس سال انہوں نے سات براعظموں میں جائیداد، فیکٹریاں اور دولت بنالی یہ کوئی جرم نہیں کہ
بے چاروں کو "بنارسی ٹھگ"کہا جائے، ٹھگوں کو تو دھوکے باز، محسن کش، یار مار، دغا باز، راہ مار، قزاق اور سارق کے برے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے، ریختہ سے لے کر آج تک اردو میں ان ٹھگوں پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، انشا جی نے بھی کہا تھاکہ"زمین پر رکھتے ہیں تسبیح والے کچھ کڑھب ڈگ ہیں۔


ہر اک پھانسی میں سو سو ہیں بڑے قزاق ہیں، ٹھگ ہیں۔
نظیر اکبر ابادی تو ان میں بھی ہیرے تلاش کرتے رہے، کہتے تھے۔

(جاری ہے)


اسی میں چور ٹھگ ہیں، اسی میں امول ہیں۔
اسی میں رونی شکل،اسی میں ٹھٹھول ہیں۔
بنارسی ٹھگ اور بنارسی ساڑھی بہت مشہور ہے، ایک ایسی قوم جو مختلف بھیس بدل کر مسافروں کو لوٹ لیتی تھی، کبھی خود وہ مسافر بن کر قافلے میں شامل ھو جاتے اور راستے میں گینگ۔

نکل آتی اور وہ لوٹ لیتے، وہ اپنے آپ کو ظاہر نہیں ھونے دیتے تھے کہ کون ان میں سے ٹھگ ھے، کئی دفعہ یہ فقیر کے بھیس میں بھی ریکی کرتے اور لوگوں کو لوٹتے تھے، لارڈ ولیم بنٹنگ جب گورنر جنرل بنا تو سب سے بڑا مسئلہ جو درپیش تھا وہ ٹھگوں کا ٹولہ تھا جس سے عوام بہت لٹتے تھے آخر لارڈ ولیم نے ان ٹھگوں کا قلع قمع کر دیا، بنارس میں غربت اور امیری کا بھی ایک بڑا تضاد تھا، اگر ایک مولانا صاحب بیس فٹ کپڑے کا عمامہ باندھ کر مسجد جا رہا ہے تو ایک غریب عورت ٹھٹھرتے ہوئے بچے کو ڈھانپنے کے لیے کپڑا تلاش کر رہی تھی، ایک سیٹھ درجنوں ساڑھیوں کی خریداری میں مصروف ہے اور غریب تن ڈھانپنے کے لیے ایک چادر کے لیے ترس رہا تھا، اس تضاد کو دیکھ کر ایک درد مند چیخ اٹھا!
اے بھگوان، یہ کیسا تیرا دربار ھے،
جہاں ھے ظلم کی بھرمار۔


رنگ محل میں بس مسخرے،
عیش کریں  سب چور لٹیرے
مورکھ کو کہیں سب گیانی
گیانی کو سب کہیں گنوار،
کوئی اوڑھے شال دو شالہ،
اور کوئی ننگا بیچ بازار
یہ کیسا تیرا دربار
لوگ اس کو بھی ٹھگ سمجھتے تھے کہ یہ مولانا سے عمامہ چھین کر عورت کے بچے کا تن ڈھانپتا، سونے میں لپٹی بدھا کی مورتی بھوک کے جہنم میں جلنے والوں کو دے آتا، سیٹھ سے ساڑھیاں چھین کر ننگے تن پر ڈال دیتا، رحمان ڈکیت سے بھی لوگ اس لئے محبت کرتے تھے کہ وہ ظالم سے چھین کر مظلوم کو دیتا تھا مگر ھمارے سیاسی ٹھگ جنہیں اجکل "بنارسی ٹھگ"کہا جا رہا ہے۔

وہ تو لندن، دبئی، سوئس بینکوں اور اب تو ھر براعظم میں ڈھنپ کر رہے ہیں، کیا یہ انصاف ھے؟حکومت نے دیر کر دی یا دیر ھو گئی کہ یہ اکٹھے ہو کر اداروں اور حکومت کے درمیان خلیج بنانے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا رہے ہیں، بلوچستان میں کوئی اور آواز، گجرانوالہ میں کچھ اور کراچی میں جدا ، یہاں تو اویس نورانی عمامے سمیت بھی کود پڑے، سول سپرومیسی کی آواز 85 سے 2013 کے کیانی صاحب تک، اور جمہوریت، پارلیمنٹ کی تقریر کو جھوٹی یا سیاسی تقریر کہہ کر خود گواہی فراہم کر رہی ہے اب اور کتنا یقین کریں؟، مولانا فضل الرحمان صاحب کہہ رہے ھیں ھمارے ساتھ چلیں ھم اسٹبلشمنٹ کو آنکھوں پر بیٹھائیں گے تو پھر آپ بہت سارے ہیں، خان تو اکیلا ھے اس کے ساتھ رہنے دیں نا، کیا  مولانا فضل الرحمان صاحب آپ 2013ء تک اقتدار میں نہیں رہے، ایک دفعہ ریسٹ ھی کر لیں، کیا ھمیشہ اقتدار میں رہنا ضروری ہے، قوم کو ,ملک کو دھوکا دے کر کتنی مرتبہ لوٹا گیا، محسن کشی کی گئی، دغا بھی دیا گیا، تو پھر آپ کو کیا کہا جائے۔

مریم بی بی چھ ماہ ڈیل یا ڈھیل کی منتظر رہیں اور اب ناکامی کی صورت میں قومی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا کر سول سپرومیسی قائم ھو جائے گی؟زبیر احمد صاحب وہی ہیں نا جو آپ کو ملنے جاتی امرا آئے تھے اور ایک گھنٹہ دروازہ تک نہیں کھولا گیا تھا، وہی آپ کے لیے کتنے دروازوں پر دستک دے چکے ہیں، سیاست میں جمہوریت کا نام عجیب لگنے لگا ہے، کسی سیاسی جماعت میں جمہوریت کا کوئی ایک عمل پوانٹ آؤٹ کر کے دیکھ لیں،مہنگائی ھے، تعلیم اور صحت کے مسائل ہیں، سب مسائل کو چھوڑ کر صرف اپنی دولت بچائیں گے، تو بنارسی ٹھگ کہنے والے زیادہ ھو جائیں گے، آپ کا بیانیہ دب جائے گا، یہ پہلے بھی بیماری اور توشہ خانہ میں گم ہو گیا تھا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :