سیرت کانفرس کا منفرد موضوع اور اھمیت!

پیر 2 نومبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

"اور ھم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا"یہ فرمان ھے اللہ تعالیٰ کا جو کتاب بر حق میں بیان کیا گیا ہے، یہ مستند بھی ھے اور اللہ کی گواہی بھی، مگر ھم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی، تعلیمات اور عظمت کے اہم پہلو بھول جاتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سماج میں انقلاب لایا، اور سماجیات کو زیادہ اہمیت دی، مگر ھم مخصوص سیاسی، یا محدود ضرورت کے لئے رحمت العالمین کے جامع پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہیں، اس مرتبہ قومی سیرت کانفرس کا موضوع ماحولیاتی الودگی اور ھماری زمہ داریاں دیکھ کر خوشی ہوئی کہ پہلی دفعہ کسی نے منفرد تو سوچا، کانفرنس میں علماء اور زعماء نے ماحولیاتی تبدیلیوں اور اس کی اھمیت پر بات کی ہے جو اثر پزیر ھو گی۔

عالمی ادارے جن خطرات کا عندیہ دے رہے ہیں ان میں نیوکلیئر جنگ سے بھی خطرناک ماحولیاتی الودگی ھے۔

(جاری ہے)

دنیا ان خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لئے کاوشیں کر رہی ہے، پاکستان کی موجودہ حکومت نے بلین ٹری منصوبے، شجر کاری مہم، اور دیگر ذرائع سے اس پر کام کیا ہے جس کے عالمی ادارے پاکستان کو چمپئن آف نیچر کا اعزاز دے چکے ہیں، لیکن سماجی سطح پر اس کا شعور بہت ضروری ہے، ھمارے معاشرے میں سوک سینس بالکل نہیں ہے، لوگ پاکستان کی سر زمین کو "ناپاک کرتے رہتے ہیں"کوڑا کرکٹ ہو، درخت کاٹنے ھوں اور آلودگی میں اضافہ کرنے کے تمام ذرائع ھم بڑی آزادی سے استعمال کرتے ہیں، دنیا کے انتہائی پسماندہ ملکوں میں بھی سوک سینس، صفائی اور خوشگوار ماحول کا گہرا شعور موجود ہے، قانون کی پاسداری بھی نظر آئے گی۔

مگر بدقسمتی سے ھمارے ھاں یہ سب مفقود ہے، میں نے ایک مرتبہ محلے کی مسجد کے خطیب صاحب سے گزارش کی کہ مسجد کے سامنے پارک ھے، کتنا خوبصورت تھا اہل محلہ نے گندگی کا ڈھیر، بنا دیا ہے، کوڑا دان ھونے کے باوجود کھانے پینے کی اشیاء، شاپرز اور  کوڑا کرکٹ سے پارک آٹا پڑا ہے اس پر بھی اپنے خطاب میں بات کریں، اسی مسجد میں موجود مدرسے کے بچے بھی اس پارک میں کھیلتے ہیں، انہیں بھی کہیں، مگر خطیب صاحب ناراض ہو گئے، اور اس کو "غیر شرعی"مسئلہ سمجھ لیا،حالانکہ ان کی بات ضرور اثر کرتی شاید عمل بھی ھوتا، مگر صفائی نصف ایمان ہے کہ اصول ، حکم اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو وہ بھول گئے، ھمارے ھاں دینی بات بھی اپنے مقاصد، سیاسی فائدے، انا اور زور خطابت کے لیے کی جاتی ہے، بھلا ہو اس حکومت کا جس نے ماحول کو بہت اھمیت دی ھے قومی نصاب، مذاکروں اور مجالس کا حصہ بنا دیا ہے۔

ورنہ پاکستان کے بڑے بڑے شہر کراچی، لاھور، فیصل آباد، پشاور، راولپنڈی، گجرانوالہ اور دیگر علاقے آلودگی میں دنیا میں بدنام ہیں، افسوس کہ ھم مسلمان ھونے کے باوجود صفائی، فطری حسن کو برقرار رکھنے اور ماحول کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کر رہے، فرانسیسی قوم تاریخ میں سب سے گندی قوم تھی، سال ہا سال نہاتے نہیں تھے مگر آج ھمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ناپاک الفاظ استعمال کیے اور بڑے بڑے مسلم رہنما خاموش ہیں، وزیراعظم عمران خان نے البتہ کھل کر بات کی اور ساری زندگی ناموس رسالت کے لیے لڑنے کا اعلان کیا، پاکستان کے عوام میں بھی غم وغصہ ھے، تاھم بارہ ربیع الاول کو کچھ لوگوں نے جلاؤ گھیراؤ  اور توڑ پھوڑ کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی نفی کی ہے، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ حضور نے کیا احکامات دئیے ہیں، رحمت العالمین کا کیا مطلب ہے، یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا عالم دیکھیں کہ اونٹ کے مالک کو کہہ رہے ہیں کہ اونٹ مجھ سے آپ کی شکایت کر رہا ہے کہ میرا مالک بھوکا رکھتا ہے، آج اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو نمونہ بنا کر معاشرے کی بنیاد ڈالی جائے تو سماجی تبدیلی  آ سکتی ھے۔

بات سیرت کانفرس کی ہو رہی تھی کہ اس مرتبہ روایات سے ھٹ کر ایک اچھا موضوع چنا گیا، اسی طرح اگر شعوری کوشش کی جائے تو آنے والی نسلوں کو ایک اچھا ماحول مل سکے گا۔ علماء، اساتذہ اور پر اثر طبقات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے سماجی پہلوؤں کو اجاگر کریں تو بہت کچھ بدل سکتا ھے۔ علماء کا کردار اس میں بہت اھم ھے، ھمارے ھاں ایک طبقہ صرف سیاست، خلافت پر بات کرے گا، دوسرا صرف جمالیات تک محدود ہو گا، مگر سماجی تبدیلی، تربیت اور شعور بہت ضروری ہے، اپنے ماحول کو صاف رکھنے کی بھی بات کریں نہیں تو آنے والے شدید خطرات آپ کے سر پر ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :