کیا انسانی زندگی اھم ھے؟

اتوار 22 نومبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

دنیا بھر میں اس وقت کورونا وائرس کے ڈیرے ہیں، اس کو کورونا کی دوسری لہر کہا جا رہا ہے، امریکہ، برازیل، انڈیا اور کئی بڑے بڑے ممالک پریشان ہیں، دہلی سے خبر آئی ھے کہ تدفین کی جگہ بھی میسر نہیں ہے، ایک خاموش وبا نے بڑے بڑے ممالک کی چیخیں نکال دی ہیں، جب جون، جولائی میں پاکستان میں کورونا وبا عروج پر تھی تو ھماری سیاسی جماعتیں حکومت پر نااہلی کا الزام لگا کر برستی تھیں، کیوں نہیں مکمل لاک ڈاؤن کیا جاتا، حکومت ناکام ھو گئی، ٹڈی دل اور کورونا کنٹرول میں حکومت ناکام ہوگئی، حکومت نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی اور چپکے سے اپنا کام جاری رکھا، سب سے مشکل مرحلہ ڈیٹا کولیکشن کس تھا، ڈیجیٹل سروس نے خوبصورتی سے ملک بھر سے ڈیٹا اکٹھا کیا گیا، این سی او سی کا قیام عمل میں لایا گیا، جہاں روزانہ کی بنیاد پر وزیراعظم کی موجودگی میں عوام کو معاشی، معاشرتی اور صحت بحران پر بریف کیا جاتا رہا، اس کی بنیاد پر قرنطینہ سینٹرز، فیلیڈ ھسپتال قائم کیے گئے، سمارٹ لاک ڈاؤن، جیسی نئی اصطلاح بھی سامنے آئی، اس پر بھی پھبتیاں کسی گئیں، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بالکل شفاف اور منصفانہ انداز میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد افراد میں احساس پروگرام کے تحت 12 ارب روپے تقسیم کیے گئے، کوئی ایک بھی شکایت نہیں آئی، جس پر ڈاکٹر ثانیہ نشتر اور وزیراعظم عمران خان کی کاوشیں سر فہرست تھیں، ملک میں ماسک، وینٹلیٹرز، ٹیسٹنگ مشینز تیار ہونا بلکہ بعض چیزیں برآمد ھونا شروع ھوئیں، اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد اور حکومتی کاوشوں سے کورونا پر قابو پایا گیا، دنیا اس کی معترف رہی بلکہ ڈبلیو ایچ او نے دنیا کو پاکستان سے سیکھنے کا مشورہ دیا،پاکستان معاشی طور پر ایک کمزور ملک ھے، کورونا نے معیشت کو ھلاکر رکھ دیا، تاھم حکومت کی کوششوں سے بحالی ممکن ہو سکی، تعمیراتی، ٹیکسٹائل، اور رئیل اسٹیٹ کی تجارت اپنی بلندیوں کو چھو رہی ہے، ایسے میں کورونا کی دوسری لہر نے گھیر لیا ہے، یہ امید تھی کہ اس مرتبہ تجربات سے سیکھنے والے عوام، سیاسی جماعتیں، اور دیگر موثر طبقات زیادہ اچھے طریقے سے مقابلہ کریں گے، مگر بدقسمتی پاکستان کی جان نہیں چھوڑتی، جلسے، جلوسوں اور تحریک کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا گیا، اپوزیشن کی سب جماعتیں خود تو حفاظت کر رہی ہیں، بختاور بھٹو کی منگنی میں کورونا ٹیسٹ کے بغیر داخلہ ممنوع ہے، مریم نواز کے محلات میں آپ گھس نہیں سکتے، مولانا فضل الرحمان صاحب کے ڈیرے سینٹائز ھیں مگر عوام کو سڑکوں جلسوں اور ریلیوں میں بلایا جا رہا ہے، گویا جان قیمتی نہیں اقتدار اور اختیار عزیز ھے، افسوس ہے کہ اس وقت وزیر اعلیٰ سندھ سمیت ، کئی لوگ اس وبا میں مبتلا ہیں، اب تک تین لاکھ اکہتر ھزار سے زائد افراد اس وبا سے متاثر ہو چکے ہیں، آخری اطلاع تک 35 ہزار ایکٹو کیسیز ہیں، ایک دن میں ھلاکتوں میں چالیس سے پچاس افراد تک شکار ہو رہے ہیں، سندھ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ ہے، مگر جلسے ھوں گے، کیوں کہ" کورونا حکومت کی سازش ھے"جلسوں کے بعد لانگ مارچ ھوگا حکومت ختم ہو گی مولانا فضل الرحمان صاحب یا بلاول بھٹو، یا پھر مریم وزیر اعظم بنیں گی، اور خطاب کرتے ہوئے آبدیدہ ہو ں گی میرے شیرو تم کورونا میں شہید ہوئے ھو مگر اب احتیاط کرنی ہے کیونکہ کوڈ 21 آگیا ہے یہ خطرناک ترین ھے، اسمیں لوگ پانی بھی بھی نہیں مانگتے، یہ ہے ھماری سیاست، یہ ہے شعور اور یہ ہیں مقاصد پھر کس پر اعتبار کیا جائے!
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :