آزاد کشمیر کے آمدہ الیکشن اور ذمہ داریاں

جمعرات 18 فروری 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

آزاد کشمیر کی حکومت کے پانچ سال جولائی میں مکمل ہو جائیں گے،  نئے انتخابات کے موسم کی آمد آمد ہے، موجودہ حکومت مسلم لیگ ن کی ہے جس کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر طمطراق کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی راجہ فاروق حیدر نے  وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی، جس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ راجہ فاروق حیدر صاحب، کھلے دل کے مالک اور اچھے آدمی ہیں لہذا ھم آزاد کشمیر میں کسی قسم کی تبدیلی کے لیے کوشش نہیں کریں گے، انہوں نے حکومت آزاد کشمیر سے مکمل تعاون کیا، سیاحت سمیت دوسرے شعبوں میں ترقی کے لیے فنڈز میں رکاوٹ نہیں ڈالی بلکہ سیاحت کے لیے مکمل منصوبہ بھی دیا تھا،  فاروق حیدر صاحب اور ان کے چند وزیر پاکستان میں اپنی جماعت سے وفاداریاں نبھانے کے لیے پیش پیش رہے ،   وہ وزیراعظم عمران خان کی اس "دریا دلی" کا فائدہ نہ اٹھا سکے،  آزاد کشمیر حکومت کے اس ردعمل پر بھی مرکزی حکومت خاموش رہی البتہ  مرکز اور  آزاد کشمیر کی  قیادت میں کچھ دوریاں پیدا ہوئیں،  فنڈز کی فراہمی میں تعطل نہیں آیا ماضی میں مخالف حکومت کے فنڈز روکے جاتے رہے ہیں، اس مرتبہ بھی وزیراعظم سے کئی لوگوں نے شکایت کی ،  عمران خان نے نہیں مانے،راجہ فاروق حیدر صاحب ایک انقلابی ذھن رکھتے ہیں ، اگرچہ سابق حکمرانوں کی طرح وہ بھی آزاد کشمیر کے عوام اور نوجوانوں کو مطمئن نہیں کر سکے، بے روزگاری، مہنگائی بڑھتی گئی اور ترقی میں بھی روایتی سستی اور قدرے لاپرواہی غالب رہی، البتہ انفراسٹرکچر اور تعلیم کے شعبے میں کچھ بہتری دیکھنے میں آئی، این ٹی ایس سسٹم لانے پر بھی لوگ خوش ہیں،  راجہ صاحب  متنازعہ اور تشویش ناک حد تک بیان بازی پر پسندیدہ تصور نہیں کیے جاتے، اس لئے اس الیکشن میں تبدیلی کے اشارے نمایاں ہیں، گلگت بلتستان کے الیکشن کے اثرات کشمیر پر بھی پڑے ہیں اور آزاد کشمیر میں  "تبدیلی"کی  تیاری ہے،  ماضی اس چیز کا گواہ ہے کہ پاکستان میں جو حکومت ہوتی ہے ، آزاد کشمیر میں بھی اسی کے حمایت یافتہ امیدوار جیت جاتے ہیں 2011 میں مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور آزاد کشمیر میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت بنی، اسی طرح 2016ء میں ہونے والے الیکشن مسلم لیگ ن کے حصے میں آئے ۔

(جاری ہے)

یہاں کے الیکشن میں برادری ازم کا بڑا زور ہے، ضلع پونچھ واحد ضلع ہے جہاں نظریات کا عمل دخل بھی رہتا ہے، باقی اضلاع میں جس مضبوط برادری کا امیدوار جس طرف ہوگا، اسی کا پلڑا بھاری رہتا ہے، اور یہ لوگ اکثر پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں، افسوس ناک امر ھے کہ چند افراد کو چھوڑ کر آزاد کشمیر کی قیادت کے اکثر افراد پارٹی بدلنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے، آزاد کشمیر میں سردار محمد ابراہیم خان، سردار عبدالقیوم خان اور کے ایچ خورشید کے بعد صرف سردار خالد ابراہیم خان اور سردار عتیق احمد خان اپنی جماعت تبدیل نہیں کر پائے،  صدارتی طرز حکومت کے بعد پہلے وزیراعظم عبدالحمید خان 1975 ء سے 1977ء تک رہے اس کے بعد  مارشل کے زیر اثر بننے والی حکومت دوبارہ آگئی  میجر جنرل (ریٹائرڈ) سردار حیات خان مرحوم صدر بنے ان کا دورِ حکومت آزاد کشمیر میں نظر آنے والی ترقی کی بنیاد ہے، بجلی، انفراسٹرکچر، تعلیم اور صحت و سیاحت کے شعبے میں آج بھی لوگ سردار حیات خان مرحوم کو دیانتداری اور ترقی کا ہیرو مانتے ہیں، 1985ء سے لیکر موجودہ حکومت تک مسلم کانفرنس نے  چھ مرتبہ ، پیپلز پارٹی نے تین مرتبہ اور مسلم لیگ ن جو اصل میں مسلم کانفرنس کا ہی تبدیل شدہ سافٹ ویئر ہے نے، ایک مرتبہ حکومت کی، 2016ء سے اب تک اور اس سے قبل مختصر مدتی تبدیلی میں راجہ فاروق حیدر صاحب حکومت کر چکے ہیں، تقریبا پنتالیس لاکھ کی اس ابادی اور چھوٹے سے رقبے کو" ذاتی پجارو کلچر سے لینڈ کروزر تک" تو ترقی دی گئی ہے لیکن عوام کا معیار زندگی بہتر کرنے کے لیے دور رس اقدامات نہیں کیے گئے، جبکہ تحریک آزادی کشمیر  کی آڑ میں ترقی معدوم تر ہوتی گئی، بدقسمتی سے تحریک آزادی کشمیر کا  صرف نام استعمال کیا جاتا ہے، عملی طور پر نوجوانوں یا عوام کی رہنمائی کا کوئی کام نہیں ہوا اور نہ ہی مشترکہ آواز اٹھانے کے اقدامات کیے گئے ، لائن آف کنٹرول کے قریب آباد  لوگوں کی قربانیوں پر بھی کسی حکمران کی نظر نہیں پڑی، سیاحت جو اس چھوٹے سے علاقے کو جنت بنا سکتی  ہے اس پر بھی کوئی کام نہیں کیا گیا،  کشمیر کے فطری حسن کو جنگلات کی کٹائی، آلودہ ماحول اور عدم توجہی سے تباہ کیا جا رہا ہے، صحت کے شعبے کو دیکھیں تو  پورے آزاد کشمیر میں ایک بھی ھسپتال ایسا نہیں جہاں مریض کا اطمینان بخش علاج ہو سکے، سب ھسپتالوں کے عملے کی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا ہے کہ"مریض کو پنڈی لے جائیں" زلزلے کے بعد جو ھسپتال سعودی عرب، امارات، اور ایرا نے بنائے تھے ان کو بھی بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے تباہ کر دیا گیا ہے، سیاحت کے شعبے میں اتنے مواقع موجود ہیں، جو صرف انفراسٹرکچر کی وجہ سے ضائع ہو رہے ہیں، اس میں بھی کوئی کام نہیں کیا جا سکا، سب وزیر، مشیر اور صدر، وزیراعظم اکثر و بیشتر اسلام آباد ہی رہتے اور سیاست کرتے ہیں، 2005ء کے زلزلے میں ایک بھی لیڈر اپنے عوام کے پاس نہیں تھا اس سے بڑی گواہی کیا ہو سکتی ھے کہ زلزلے کے تین دن بعد تک کوئی لیڈر کہیں نظر نہیں آیا، حالانکہ یہ وہ لوگ تھے کہ جب ایک علاقہ کسی مصیبت یا آفت سے محفوظ ہوتا تھا تو وہ دوسروں کی مدد کے لیے پہنچ جاتے تھے، قائدین کی عدم دلچسپی سے ایسا نہیں ہو سکا، یہی لیڈر تحریک آزادی کشمیر کے متعلق  تقریروں، متنازع بیانات اور عیاشی کے علاؤہ کوئی کام نہ سوچتے ہیں اور نہ کرتے ہیں، اب الیکشن ہونے جا رہے اکثر نوجوان  ووٹ دینے کے اہل ہو چکے ہیں، ممکن  نئی کوئی قیادت سامنے آ سکے! دوسری طرف پی ٹی آئی کو پہلی مرتبہ الیکشن میں کودنے کا موقع مل رہا ہے، قیادت اگرچہ بیرسٹر سلطان محمود  چوہدری کے پاس ہے، جن کا کشمیر کی تحریک کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کا ایک بیک گراؤنڈ موجود ہے، وگرنہ وہ بھی کئی پارٹیاں تبدیل کر چکے ہیں، نوجوان عمران خان سے محبت کرتے ہیں، کشمیر پر بات کرنے اور سیاحت اور صحت کی پالیسیوں سے خوش ہیں کوئی بھی قیادت ہو عمران خان کے نام پر تبدیلی کے آثار نظر آ رہے ہیں، جانے والی حکومت ہو یا آنے والی انہیں سب سے پہلے نوجوانوں کو مطمئن کرنے کے لیے لائحہ عمل بنانا ہوگا، وگرنہ آئیندہ آنے والے سالوں میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں، قدرتی حسن کو برقرار رکھتے ہوئے سیاحت کے شعبے کو صنعت کا درجہ دینے کی ضرورت ہے، روڈ انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ ایکو ٹورزم کو فروغ دینا ھو گا، اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، جنگلات کی کٹائی روکنے اور نئے درخت لگانے پر خصوصی توجہ دینی ہوگی، سب سے پسماندہ شعبہ، صحت کا ہے، موجود ھسپتالوں کو معیاری، صاف ستھرا اور علاج کے قابل بنانے کی ضرورت ہے، ایک اندازے کے مطابق کشمیر کی شرح خواندگی 85فیصد ہے، مگر معیار تعلیم اتنا بہتر نہیں ہے جس پر توجہ کی بہت ضرورت ہے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے زرعی پیداوار کے حصول پر ایک لائحہ عمل بنانا ہو گا تاکہ وہ فصلیں جو اس موسم میں حاصل کی جا سکتی ہیں ان پر کام شروع ہو سکے اس کے ساتھ ساتھ پھلوں کی پیداوار اور محفوظ کرنے کے منصوبے بنانے ہو ں گا، تحریک آزادی کشمیر پر درست رہنمائی کے لیے مرکزی حکومت سے مل کر کام کرنا چاہیے، آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی چہ میگوئیاں بھی چل رہی ہیں اس پر تمام جماعتوں کو ایک قابل قبول بیانیہ دینا ھو گا جس سے تحریک آزادی کشمیر پر برے اثرات مرتب نہ ھوں، جو بجٹ آزاد کشمیر کو ملتا ہے اگر اشرافیہ اور حکومت اپنے خرچے اور عیاشیاں ختم کر دے تو آزاد کشمیر ایک مثالی علاقہ بن سکتا ہے، محکمہ پولیس، اساتذہ اور  نئے تعلیمی اداروں کے قیام پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

کشمیر میں قیادت کا بحران بھیانک شکل اختیار کر رہا ہوں، نوجوانوں کو آگے لایا جائے تاکہ مستقبل میں بہتری کی امید پیدا ہو سکے۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :