اشرف صحرائی اور تحریک آزادی کشمیر

پیر 10 مئی 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

بھارت میں دو کروڑ سے زائد افراد کورونا کا شکار ہو چکے ہیں، روز پانچ ہزار سے زائد اموات ہو رہی ہیں، مگر دوسری طرف کشمیر میں پانچ اگست کے مظالم کا سلسلہ جاری ہے، کون سوچ رہا ہے کہ اشرف صحرائی جیسے بزرگ جیل میں علاج نہ ہونے کی وجہ سے داعی اجل کو لبیک کہہ گئے، مقبوضہ کشمیر سے ایک اور ظالمانہ سلوک کیا جا رہا ہے کہ وہاں موجود وینٹیلیٹرز اٹھا کر دہلی بھیجے جارہے ہیں، نوجوانوں کو شہید کیا جارہا ہے، اشرف صحرائی ایک نہیں، شبیر احمد شاہ کی زندگی جیل میں گزر گئی، یاسین ملک جیل میں مفلوج ہو چکے، بزرگ رہنما سید علی گیلانی آخری سانس تک کا سودا آزادی کے لیے کر چکے، مقبول بٹ شہید نے اپنی جان تہاڑ جیل میں قربان کی، افضل گورو بھی اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے جان قربان کر گیا، اشفاق مجید وانی سے برھان وانی تک نوجوان پرچم تھامے قربانیاں دے چکے، اشرف صحرائی کو ہی لیں 1963ء سے لیکر جیل ہی گھر بنائے رکھا، شیخ عبداللہ جیسے لوگوں کو چیلنج کیا، دکھ اس بات کا ھے کہ آزاد کشمیر میں موجود قیادت تھوڑے سے سیاسی فائدے کے  میں الجھی ہوئی ہے، ایک چھوٹا سا آزاد کشمیر کا خطہ 73 سال سے تعلیم، صحت اور سیاحت جیسی خوبیوں سے محروم ہے، یہ پہلے پجارو اور کرسی ھدف رکھتے تھے، اب لینڈ کروزر، اسلام آباد میں پلاٹس اور دورے وہ بھی وی آئی پی، یہی تو ھدف ہے، جب کوئی سیاسی مشکل پیش آتی ہے تو تحریک آزادی کشمیر چیخنا شروع کر دیں گے، حالانکہ یہ اب تک اس کے لیے کچھ نہیں کر سکے، ھو کیا سکتا ہے؟ اگر ان میں کردار مضبوط ہو اور آواز مؤثر ہو تو مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی قیادت ورچوئل رابطوں کے ذریعے بہترین سفارت کاری کر سکتے ہیں، ایک موقف صرف آزادی کو مشن بنا لیں دنیا کے سامنے اتنا موقف مسلسل پہنچاتے رہیں تو بہت کچھ ھو سکتا ھے، میرے والد مرحوم اسلام آباد میں ملازمت کرتے تھے کہتے ہیں میں ہر ہفتے ایک درخواست یو این مشن اسلام آباد کے دفتر پہنچاتا تھا کہ کہ کبھی تو اقوام متحدہ کو خیال آئے گا! ایک فلاسفر کا کہنا ہے کہ ایک ادارے یا شخص کو دس مرتبہ تسلسل کے ساتھ کوئی بات کہی جائے تو وہ ایک مرتبہ ضرور غور کرتا ہے، مگر ھمارے سیاستدانوں کو آزاد کشمیر کی چھوٹی سی" وزیراعظی" اتنی پیاری ہے کہ یہ خطرے میں آ جائے تو تحریک آزادی کشمیر۔

(جاری ہے)

خطرے میں پڑ جاتی ہے، نوجوان ہوں یا کشیمری عوام انہیں جب تک یہ احساس نہیں ھو گا کہ ھم نے ہی کشمیر کے لئے کچھ کرنا ہے تب تک کچھ نہیں ہوگا، وہ بھی ایک موقف" صرف آزادی" یقین جانیں باقی ادھر ادھر کے نظریات منزل مشکل اور ناممکن بنا دیں گے۔ اشرف صحرائی سید علی گیلانی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے، بنیادی طور پر ان کا قبیلہ خیبرپختونخوا سے ھے، مگر وہ جس جانفشانی سے تحریک آزادی کشمیر کے لئے جدوجہد کرتے رہے سب کے لیے ایک امید ہے، بھارت میں اس وقت جتنے مسائل کورونا نے پیدا کر رکھے ہیں ان حالات میں بھی وہ مظالم نہیں بھولے تو وہ کب آپ کی شنوائی اور کیوں کرے گا؟ آپ نے ہی سوچنا اور کچھ کرنا ہے، مقبوضہ کشمیر کی قیادت قربانیاں دے رہی ہے آپ کو اس کا سفارتی محاذ فتح کرنا ہے، ھماری قیادت کو اشرف صحرائی صاحب کے لیے ایک تعزیتی ریفرنس کرنے کا بھی حوصلہ نہیں ھوا، پاکستانی وزیراعظم نے سعودی عرب اور یو اے ای پر دباؤ بڑھایا ھوا ھے کہ آپ انڈیا کو مظالم سے روک سکتے ہیں، یہ حقیقت بھی ہے، یہ جو تازہ حالات پیدا ہوئے یہ انہی کوششوں کا نتیجہ ہے، عمران خان شاید بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر کیا حکومت آزاد کشمیر اور کشمیری قیادت کوئی مشترکہ موقف اپنا سکتی ہے؟ یہ سوال اہم ہے۔

اس سوال پر تمام سیاسی جماعتوں کو ایک معاہدہ کرنا ھو گا ایک چارٹر دنیا کے سامنے رکھیں جس میں آزادی کا حق واحد ایجنڈا ہو، اس کے گہرے اثرات ہوں گے باقی فیصلے آپس میں بیٹھ کر کرتے رہیے گا، کشمیر جتنا ھے اس کی آزادی اور استصواب رائے فورآ ضروری ہے، بھارت جس تیزی سے کشمیر کا نقشہ بدل رہا ہے، ابادی میں ردوبدل کیا جا رہا ہے، مستقبل انتہائی تشویشناک ھو جائے گا، یہی وقت ہے مشترکہ لائحہ عمل کا جس پر تمام اختلافات بھلا کر آگے بڑھنا ھو گا کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :