" ھم نے کڑاکے نکال دئیے" ۔۔۔آہ ڈاکٹر عبد القدیر خان

پیر 11 اکتوبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

یہ مئی 1998ء کی بات ہے، پاکستان نے سخت دباؤ میں، بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد ،سات ایٹمی دھماکے کیے، عوامی سطح پر بھارتی دھماکوں کے بعد شدید دباؤ تھا، ھم اور اس وقت کے ھمارے سیاسی"مرشد" بھی فوری دھماکے کرنے کے مطالبات میں پیش پیش تھے، میں عملی طور پر اخبار سے منسلک تھا، روز کوئی مظاہرہ، اجتماع، اور مذاکرہ صرف اسی مطالبے پر تھا اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سخت دباؤ میں تھے، البتہ پاکستانی سائنسدان اور اعلیٰ عسکری ادارے فوری دھماکوں کے لیے تیار اور حکومت کے انتظار میں تھی کہ آخر کب فیصلہ ھوگا، سیاسی، مذھبی اور سماجی تنظیموں نے بھرپور مہم چلا رکھی تھی، محسوس یہ ہوتا تھا کہ حکومت نہیں چاہتی مگر باقی سب ادارے اور خصوصاً ڈاکٹر عبد القدیر خان چاہتے تھے کہ فوری بھارت کو منہ توڑ جواب دیا جائے، میاں محمد نواز شریف کو بالکل فیصلہ کرنے میں شدید مشکلات پیش آرہی تھیں، معاشی پابندیوں کا خطرہ، اور خود داری دونوں کے درمیان کئی لوگ پھنس چکے تھے، لیکن سائنسدان اور دیگر ادارے پر اعتماد تھے، اگرچیکہ یہ ایک ٹیم ورک تھا لیکن قیادت ڈاکٹر عبد القدیر خان کر رہے تھے، بالآخر شدید عوامی دباؤ پر میاں نواز شریف کو فیصلہ کرنا پڑا کہ ، 28 مئی کو چاغی کے پہاڑوں سے پاکستان کی ایٹمی پاور کی روشنی بلند ھوئی، جس نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، ھم ایک سیاسی رہنما کے ساتھ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ملنے پہنچے تو مشاہد حسین سید صاحب، اور تقریب میں بے شمار سیاسی اور فوجی رہنما موجود تھے، اس وقت ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ملنا مشکل ترین کام تھا، سخت سیکورٹی، اور حفاظت حصار نہایت مشکل کا باعث تھے، ھم تقریب میں پہنچے تو ڈاکٹر عبد القدیر خان اور مشاہد حسین سید کی خوشی دیدنی تھی، ڈاکٹر صاحب نے اور مشاہد حسین سید نے یک زبان ہو کر کہا "ھم نے پھر کڑاکے نکال دئیے' اور اس پر پھر زور دار قہقہہ لگایا، ڈاکٹر عبد القدیر خان انتہائی نفیس اور عمدہ ادبی مزاج کے آدمی تھے، چمکتا ہوا خوشی کا چہرہ مجھے آج تک یاد ہے، اب پاکستان ایٹمی قوت بن چکا تھا، اگرچہ انڈیا کو پہلے ہی پاکستان نے مختلف طریقوں سے دھمکا رکھا تھا کہ ھمارے پاس ایٹم بم تیار ہیں، اس سلسلے میں مامور صحافی کلدیپ نائر کے ذریعے کئی مرتبہ پیغام جاچکا تھا، تاہم عملی اظہار ضروری تھا، اور پوری قوم کی' بھی یہی خواہش تھی جو 28 مئی 1998ء کو پوری ھوئی، اس کا بہت کریڈٹ میاں نواز شریف صاحب نے سمیٹا، حالانکہ واقفان حال جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف فیصلہ ہی نہیں کر سکتے تھے، اس لئے عوامی دباؤ بڑھایا گیا، خیر پاکستان ایک پہلی مسلم ریاست بن گیا جو ایٹمی قوت رکھتا ہے، اس میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کی بے مثال قربانیاں ہیں، افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ 29 مئی 1998ء کی صبح پاکستان بھر میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو خراج تحسین پیش کرنے کے بینرز آویزاں تھے، حکومت شاید ڈاکٹر عبد القدیر خان کو کریڈٹ دینا نہیں چاہتی تھی، اگرچیکہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور دیگر سائنسدانوں کا نمایاں حصہ ھے، مگر ابتدا اور آئیڈیا سے لے کر پروڈکشن تک قیادت ڈاکٹر عبد القدیر خان کی تھی،
  ڈاکٹر عبد القدیر خان یکم اپریل 1936ء میں بھارت کے شہر بھوپال میں  ایک پشتون خاندان میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد تقریباً پندرہ سال یورپ میں تعلیم حاصل کی، جہاں انہوں نے ھالینڈ، بیلجیئم کی یونیورسٹی سے طبعیات کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں جبکہ مغربی برلن جرمنی کی یونیورسٹی سے ماسٹر آف انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی، ڈاکٹر عبد القدیر خان پر ھالینڈ کی ایک عدالت میں ایٹمی راز چرانے کا الزام بھی لگا تاہم جرمنی، ھالینڈ، بلجئیم کے سائنسدانوں کی مکمل تحقیقات کے بعد عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی کہ یہ سب راز کتابوں میں موجود ہیں، عدالت نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو بری کر دیا،
  ڈاکٹر عبد القدیر خان ذولفقار علی بھٹو کی دعوت پر 1976ء میں پاکستان آئے اور یہاں یورنیم افزودگی اور ایٹمی ریسرچ کے ایک ادارے کی بنیاد ڈالی، جس۔

(جاری ہے)

کو 1981 ء میں جنرل ضیاء الحق نے "کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز"اور ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز میں تبدیل کردیا، ڈاکٹر عبد القدیر خان نے ھالینڈ میں ھنی نامی خاتون سے شادی کی، جو ہنی خان کے نام سے مشہور ہیں، ڈاکٹر عبد القدیر خان کو اعلیٰ سول اور فوجی اعزازات سے نوازا گیا، جن میں اعلیٰ اعزاز نشان امتیاز بھی ہے، انہیں جامعہ کراچی نے اعزازی ڈگری بھی۔

عطا کی،  ڈاکٹر عبد القدیر خان ریسرچ لیبارٹریز نے زمین سے زمین پر مار کرنے والے غوری میزائل، اور جدید راکٹ لانچرز کی تیاری میں بھی اہم کردار ادا کیا، ڈاکٹر عبدلقدیر خان نے تعلیمی اور فلاحی کاموں کے لیے بے شمار خدمات سر انجام دیں، جو آخری وقت تک موجود ہیں، جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ڈاکٹر عبد القدیر خان نے پاکستان کے لیے ایک اور بڑی قربانی دی اور پاکستان کو الزامات سے بچانے کے لیے سخت دباؤ میں الزام اپنے سر لے لیا، جس کی وجہ سے انہیں گھر میں نظر بند اور سخت پابندیوں کا سامنا کیا، مگر پاکستان کے لیے ان کے حوصلے، جنون اور خدمات میں کمی نہیں آئی، بلاشبہ وہ ایک عظیم انسان تھے، عرصہ دراز سے اخبار میں مختلف تعلیمی اور اصلاحی موضوعات پر کالم لکھتے رہے، حال ہی میں کورونا وائرس کا شکار ہوئے، تاہم صحت مند ہونے کے بعد، پھر پیچیدگیوں کا شکار ہوئے،10 اکتوبر 2021 ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، ان کی۔

عمر 85 سال تھی، جیے تو بے مثال، مرے تو امر ہوگئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :