"بشیر بڈھا ہو گیا"۔۔۔۔!

منگل 26 اکتوبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

کچھ دن قبل عم عصر بشیر سے ملاقات ھوئی، ملتے ہی کہنے لگا، یار میں باعزت طریقے سے بڑھاپے میں قدم رکھنا چاہتا تھا، لیکن میرے بچے، میرے جوان اور میرے ارمان بوڑھا نہیں ہونے دیتے ،کچھ عرصے سے لگ رہا ہے کہ "میں بڈھا ھوگیا ھوں' میں نے کہا ایسا کیا ہوا، ایک لمبی سرد آہ بھری  کہنے لگا، کیا بتاؤں جس سے کوئی امید باندھتے ہوں وہ آخر پہ  ھاتھ کھڑے کر دیتا ہے، میں نے پوچھا کس سے امید لگائی تھی؟ کہنے لگا یار پہلے تحریک نظام مصطفیٰ سے امید لگائی اس میں سے امریکہ برآمد ھوا اور ، روٹی، کپڑا مکان سے امید باندھی ، فٹ پاتھ پر آگئے، ایک نئی" ضیا" آئی ھاتھ باندھ کر صف میں کھڑے ھو گئے، پتا لگا وہ بھی جھوٹ، انتشار اور گولا بارود لایا ، پھر ان کے چہتوں سے امیدیں وابستہ ھو گئیں، پھر قتل ھوا  نہ قرض واپس ھوا اور نہ ملک سنورا اور نہ شریعت نافذ ھوئی ،میاں ، بی بی صاحبہ، آور کئی علماء سے آ س بندھی، خواب ٹوٹ گیا، ، سب برباد ھوا کسی کو کچھ نہیں کہا، روشن خیالی سے، بدحالی نکلی، مفاہمت اور میگا پراجیکٹس تک سب قرضوں کے بوجھ تلے داب کر یہ جا، وہ جا۔

(جاری ہے)

پھر نیا پاکستان ، امیدوں کا مرکز بن گیا، اس سے امیدیں تھیں، ان کے بھی پیر پھسل رہے ہیں، کیا زندگی ھے ھماری؟، جب ڈور ھلتی ھے تو چھوٹی چھوٹی خبریں ، بڑے بڑے فتنے جنم دینا شروع کر دیتی ہیں، میں سنتا گیا, بشیر بولتا گیا میں نے کہا بشیر یار بس کر، یہ کہانیاں سنتے ہوئے میری بھی نصف صدی گزر گئی، کہنے لگا تو "بڈھا کیوں نہیں ھوا" میں نے کہا کچھ عرصہ اسی زعم میں جینے دو کہ، ابھی تو میں جوان ہوں، کہنے لگا رہنے دو، فطرت سے لڑائی کب تک کرو گے، تمہیں یہ مہنگائی کا طوفان نظر نہیں آتا، اور تو اور جب گاڑی میں بیٹھتے ہوئے لوگ چاچا کر کے سیٹ چھوڑ دیتے ہیں، چاچوں جیسے لوگ بھی چاچا کہتے ہیں، میں نے کہا تو کیا ھوا، کہنے سے کیا ھوتا ھے بشیر کہنے لگا، میری بات سن مہنگائی کا بہانہ بنا کر بڑھاپے میں قدم رکھ لے، آسانی ہو گی، تسبیح، جائے نماز لے کر مسجد، پھر ڈنڈی سی لے کر" پارک میں واک" ! بشیر یہ وہ لوگ ہیں جو بہت کچھ کر چکے ہیں، بینک بیلنس، پلاٹ، گاڑیاں، اور بہت کچھ ھے، پھر بھی کہتے ہیں، پاکستان میں کیا رکھا ہے، ڈی ایچ اے، بحریہ، اور بڑی بڑی سوسائٹیوں میں گھر، بزنس، بچے باہر، یہاں جائیداد ہی جائیداد، پھر کہتے ہیں، پاکستان میں کیا رکھا ہے، بشیر کہنے لگا، یار مہنگائی نے اس مرتبہ چیخیں ہی نکال دیں،  میں بھاؤ پوچھ کر ہی تھک جاتا ہوں، ھے نا یہ بڑھاپے کی علامت؟ ایک جگہ مرغی، دو سو کی، دوسری جگہ، دو سو نوے کی، اسی طرح سبزیوں، پھلوں کی قیمتیں مختلف، دودھ دہی کی یہی حالت، تو بوڑھا تو ھونا ھے کہ نہیں، میں نے کہا بشیر اس طرح سوچ بوڑھی ھو سکتی ھے، بندا کیسے؟ بشیر کہنے لگا اس بوجھ سے کمر جھک گئی، بس سجدہ ریز ہونے کی باری ہے، پتہ نہیں کس کے آگے ھو گا؟ بشیر تو کوئی زیادہ ہی جذباتی نہیں ھو گیا، کہنے لگا یار ھم ہی ٹھیک نہیں ھو رہے حکومت کیا کرے گی، کوئی بھی آ جائے ھماری بلا سے، دیکھ ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کی یہ حالت ہے کہ، آنکھوں سے دکھتا نہیں، گرمی نے ابھی تک پھنکوں کو چھٹی نہیں دی، سردی آئے تو وردی آئے، کچھ تو سکون ھو، "وردی" کا مطلب موٹے کپڑے کچھ اور نہ سمجھ لینا، کیونکہ پھر اتارنا مشکل ھو جاتی ھے،  بشیر تو بڈھا نہیں سیاسی ھو گیا ھے، یہ سیاسی اور" سیاہ سی" باتیں نہ کیا کر، بیمار پڑ جائے گا، کہنے لگا، یار دعا کر بیمار نہ پڑ جاؤں دوائیاں بہت مہنگی ہیں، بچوں کی تعلیم ابھی رستے میں، شادیاں، فرائض رہتے ہیں، سوچ سوچ کر "بڈھا ہی ھو گیا ھوں" بات سن بشیر ایسا کر، قرض لے لے ، بولا توبہ کر مر گیا تو کون واپس کرے گا، اتنا مہنگا قرض، بڑے لوگ تو معاف کرا لیتے ہیں، ادھر بھی خوش، آگے بھی نہر کے کنارے مزے، کچھ نے تو "حوریں" لا کر بیٹھا دی ہیں باقاعدہ جلوس نکال کر دیدارِ عام کروایا ھے،  ھم نے تو بس فوٹو ہی دیکھی، لوگ تو مست تھے کہ "آج حور، سرور، زمین پر" کیا زمانہ آگیا ہے،  بشیر تجھے میری بات سمجھ نہیں آ رہی ایسا کر اپوزیشن نامی ایک تحریک شروع ھے اس میں شامل ھو جا تمھارا بڑھاپا کہیں کام آ جائے گا، کہنے لگا کیوں بے موت مار رہے ھوئے ، میں نے تمھارا کیا بگاڑا ہے، کیوں کیا ہوا، کہنے لگا یہ تو وہی ہیں جو بہت کچھ کہتے رہے ہیں، ان کو بھی کرسی کی دوری پسند نہیں، بیٹھ گئے تو بھول گئے، خدا رحم کرے، جواں حوصلہ لوگوں کو بوڑھا کر دیتے ہیں، میں یہی سوچ سوچ کر بڈھا ھوگیا، صحافت، سیاست، تجارت اور عبادت سب کچھ داؤ پر ھے، سب کہتے ہیں ھم ٹھیک ہیں، فیصلہ کیسے کریں،
  میں نے کل ایک ٹیکسی والے کو کہا بھائی کو کورونا ھوا تھا وہ سن کر ہی بھاگ گیا، حالانکہ میں بھائی سے ملا تک نہیں، کیا ھو گیا ھے ھمیں کوئی سنتا نہیں کوئی سمجھتا نہیں، کوئی ایسا جادو بتا دے، کوئی "گلاس" مجھے بھی دلوا دے جو خوشیوں سے، جوانی سے،  اور سونے سے بھر جائے، تمھاری "چھو پھو" چلتی ھو تو مجھ پر دم کر دے، میں جوان ھو جاؤں ورنہ بشیر بڈھا ھو چکا ہے، سکت نہیں ہے۔

یہ تقریر کرنے کے بعد وہ بڑبڑاتا ہوا چلا جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا، "بشیر بڈھا ہو گیا،۔۔۔۔،

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :